آپ اپنی ضرورت سے زائد، اور اموال صدقات میں سے بچا ہوا مال تھوڑی دیر کے لئے بھی رکھنا پسند نہ فرماتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ "رسول اللّٰہ صلے اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض وفات کے زمانہ میں میرے پاس چھ۶ یا سات۷ دینار تھے، آپؐ نے مجھے حکم دیا کہ اس کو تقسیم کردوں، حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی تکلیف کی وجہ سے مجھے اس کا موقعہ نہ ملا، پھر آپؐ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم نے ان چھ۶ سات۷ دیناروں کے ساتھ کیا کیا؟ میں نے کہا میں آپؐ کی تکلیف کی وجہ سے ایسی مشغول ہوئی کہ خیال نہ رہا، آپؐ نے اس کو منگوایا، اور اپنے ہاتھ پر رکھا، اور فرمایا کہ اللّٰہ کے نبی کا کیا گمان ہوگا، اگر وہ خدا سے اس حال میں ملے کہ اس کے پاس یہ ہو"۱ صحیح حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ :"جس کے پاس ایک سواری زائد ہو تو جس کے پاس ایک سواری بھی نہ ہو، اس کو دے دے، جس کے پاس سامان زائد ہو تو اس کو دے دے جس کے پاس سامان نہ ہو ۲۔
علامہ ابن قیّم نفلی صدقات کے بارے میں آپ کا طریقہ و معمول ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:۔
"رسول اللّٰہ صلے اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مال کو سب سے زیادہ صدقات و خیرات میں صرف فرماتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ جو بھی آپؐ کو عطا فرماتا، آپ نہ اس کو بہت زیادہ سمجھتے نہ کم ہی سمجھتے، آپ سے اگر کوئی شخص سوال کرتا اور آپؐ کے پاس وہ چیز ہوتی، تو کم وبیش کا خیال کئے بغیر اس کو عنایت فرما دیتے، آپؐ اس طرح دیتے تھے، جیسے کمی و تنگی کا کوئی خوف نہ ہو، عطیات، صدقات، و خیرات آپؐ کا محبوب عمل تھا، آپؐ دے کر اتنا خوش و مسرور
------------------------------
۱ بخاری، مسند ابن حنبل اور سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
۲ ابو داؤد بروایت ابوسعید خدری رضی اللّٰہ عنہ، ماخوذ از " ارکان اربعہ"