ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
دستخط مہم کو چلایا جس میں حضرت حکیم الاسلام سے اپیل کی گئی تھی کہ کراچی میں مستقل سکونت فرمائیں ، یہ مہم بہت زور و شور سے چلی اور کامیاب بھی ہوگئی، اس مہم کی بعض بزرگوں نے مخالف بھی کی یہ مخالفت دو قسم کی تھی ، ایک تو وہ بزرگانِ دین تھے جن میں حضرت حکیم الاسلام کا کراچی اور پاکستان میں مستقل قیام اس لیے پسند نہیں تھا کہ اِن کے ہوتے ہوئے اُنہیں کوئی نہیں پوچھے گا، ان بزرگوں میں سے ایک بزرگ کراچی کے معروف خطیب تھے۔ دوسری مخالفت میرے جد ِ امجد حضرت قاری صاحب نے کی اور یہ اختلافی نوٹ لکھ کر کی کہ ہم حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحب کے پاکستان میں مستقل قیام کے اِس لیے مخالف ہیں کہ دارُالعلوم دیوبند کو اِن کی زیادہ ضرورت ہے اور اِن کو دارُ العلوم کی ضرورت ہے۔ دارُالعلوم کی جو خدمت حضرت حکیم الاسلام کر رہے ہیں وہ خود اُن کے لیے طمانیت ِ قلبی کا باعث ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم حضرت حکیم الاسلام کو یہاں بے عزت ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے اِس سے جہاں حضرت کو تکلیف ہوگی وہیں ہمیں بھی ہوگی، ہم دارُ العلوم دیوبند کا نقصان بھی نہیں دیکھ سکتے اور حضرت حکیم الاسلام کی تکلیف بھی نہیں دیکھ سکتے۔ واضح رہے کہ میمن برادری حضرت حکیم الاسلام سے مخلص تھی لیکن دُورس نگاہ سے محروم تھی اس لیے حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب نے پاکستان میں مستقل سکونت کی مخالفت فرمائی جو بالکل درست ثابت ہوئی اور یہ مخالفت شیخ الاسلام حضرت مدنی کے مزاج کے مطابق بھی تھی، حضرت حکیم الاسلام کے جتنے قدرداں حضرت شیخ الاسلام تھے شاید ہی کوئی ہو، حضرت شیخ الاسلام کے متوسلین میں بھی یہی بات آئی۔ حضرت جد ِامجد علیہ الر حمہ نے جس کا خدشہ فرمایا تھا وہی ہوا، خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اورکانوں سے سنا کہ حضرت حکیم الاسلام کے ایک قریبی عزیز جن کے اُس وقت حکمرانوں سے بھی قریبی مراسم تھے اُنہوں نے حضرت حکیم الاسلام کی پاکستانی شہریت کی مخالفت اپنے