ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
اِسی طرح تمہیں نماز کے اَرکان ادا کرنے سے ضرور نفع پہنچے گا اگر چہ تمہیں اُس کے اَسرار و رموز سے واقفیت نہ ہو۔نماز کی رُوح اور بدن : جاننا چاہیے کہ جاندار مخلوق کی طرح اللہ تعالیٰ نے نماز کو بھی ایک صورت اور ایک رُوح عطا فرمائی ہے چنانچہ نماز کی رُوح تو نیت اور حضورِ قلب ہے اور قیام و قعود نماز کا بدن ہے اور رکوع و سجود نماز کا سر اور ہاتھ پاؤں ہیں اور جس قدر اَذکار و تسبیحات نماز میں ہیں وہ نماز کے آنکھ کان وغیرہ ہیں اور اَذکار و تسبیحات کے معنی کو سمجھنا گویا آنکھ کی بینائی اور کانوں کی قوتِ سماعت وغیرہ ہیں اور نماز کے تمام اَرکان کواطمینان اور خشوع و خضوع (عاجزی اور اِنکساری) کے ساتھ ادا کرنا نماز کا حسن یعنی بدن کا سڈول اور رنگ و روغن کا درست ہونا ہے۔ الغرض اِس طرح پر نماز کے اجزاء اور اَرکان کو بحضورِ قلب پورا کرنے سے نماز کی ایک حسین وجمیل اور پیاری صورت پیداہوجاتی ہے۔ اور نماز میں جوتقرب نمازی کو اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتاہے اُس کی مثال ایسے سمجھو جیسے کوئی خدمت گار اپنے بادشاہ کی خدمت میں کوئی خوبصورت کنیز ( زرخرید باندی یا لونڈی) ہدیہ پیش کرے اور اُس وقت اُس کو بادشاہ سے تقرب حاصل ہو، پس اگر تمہاری نماز میں خلوص نہیں ہے تو گویا مردہ اور بے جان کنیز بادشاہ کی نذر کررہے ہواور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی گستاخی و بے باکی ہے کہ ایسا گستاخ شخص اگرقتل کر دیا جائے تو عجب نہیں، اگرنماز میں رکوع و سجدہ نہیں ہے تو گویا لنگڑی لُولی اور اَپاہج کنیز نذر کرتے ہو اور اگرذکر و تسبیح اُس میں نہیں ہے توگویا کنیز کے آنکھ کان نہیں ہیں اور اگر سب کچھ موجود ہے مگرذکر و تسبیح کے معنی نہیں سمجھے اور نہ دل متوجہ ہوا تو ایسا ہے جیسے کنیز کے اعضا توسب موجود ہیں لیکن اُن میں حس و حرکت بالکل نہیں یعنی حلقۂ چشم موجود ہے مگر بینائی نہیں ہے اور کان موجود ہیں مگر بہرے ہیں کہ سنائی نہیں دیتا ہاتھ پاؤں ہیں مگر شل اور بے حس ہیں، اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اَندھی بہری کنیز شاہی نذرانہ میںقبول ہوسکتی ہے یا نہیں ؟