ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
تحقیق لفظ'' اللّٰہ'' : بعض نے کہا کہ یہ اسمِ جامد ہے اور حق بات یہ ہے کہ اِلہ بمعنی معبود سے مشتق ہے، ہمزہ حذف کر کے الف لام اِس کے عوض لایا گیا ہے اور چونکہ یہ عوض بطورِ لزوم کے ہے اِس لیے ''یااللہ'' کہنا جائز ہو گیا کیونکہ اشتقاق کے معنی ہی یہ ہیں کہ دو لفظ معنی اور ترکیب میں مشترک ہوں پھر یہ لفظ اُس ذات واجب الو جود کا نام ہو گیا جو مستجمع ہے تمام صفاتِ کمال کو اور پاک ہے تمام رذائل سے اور اسی لیے یہ لفظ خود موصوف ہوا کرتاہے کسی اور لفظ کی صفت واقع نہیں ہوتا۔ اور اظہار ِ توحید کے وقت لا اِلہ اِلااللہ کہا جاتا ہے اور کبھی اس کا اطلاق اصل معنی پر ہوتا ہے فرمایا (وَھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ) آسمانوں اور زمینوں میں صرف وہی معبود ہے۔تحقیق اَلرَّ حْمٰنِ الرَّ حِیْمِ : یہ دونوں لفظ رَحْمَة سے مشتق ہیں اور رحمت رقت ِقلب (دل کی نرمی) کو کہتے ہیں جس کا مقتضٰی فضل و احسان ہے مگر یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائِ صفات میں مبادی الفاظ کا لحاظ نہیں ہے بلکہ غایات و معنی کا لحاظ رکھا گیا ہے اور رحمت کا انجام احسان ہے انجام کو غایات کہتے ہیں اور آغاز کو مبادی یہ بات ظاہر ہے کہ مبادی انفعالات ہوا کرتے ہیں اور انفعالات سے اللہ تعالیٰ منزہ ہے، بعض کا قول ہے کہ یہ دونوں ہم معنی لفظ مبالغہ کے صیغے ہیں اور حق یہ ہے کہ رحمن میں زیادتی لفظ کے باعث رحیم کے نسبت مبالغہ زیادہ تر ہے اِس لیے لفظ رحیم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوا۔ حضرت رسول اللہ ۖ کے متعلق ( بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْف رَّحِیْم ) کہا گیا ہے اور رَحْمٰنْ صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ دونوں اسم مہربانی پردلالت کرتے ہیں اور ایک میں دوسرے کی نسبت زیادتی اور مبالغہ پایا جاتا ہے پھریہ زیادتی کبھی مقدار کے لحاظ سے ہوتی ہے (یعنی رحمت سے فائدہ اُٹھانے والے زیادہ ہوتے ہیں) اِس اعتبار سے اللہ کو رَحْمٰنُ الدُّنْیَا وَ رَحِیْمُ الْاٰخِرَةِ کہتے ہیں کیونکہ رحمت آخرت میں صرف پرہیز گاروں کا حصہ ہے اور کبھی یہ زیادتی محض کیفیت