ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
زمانے میں دارُ العلوم دیوبندمیں تجوید کا شعبہ قائم کیاگیا تھا جو اِس سے پہلے نہ تھا، حضرت حکیم الاسلام خود فرماتے ہیں : ''دارُ العلوم دیوبند میںشعبۂ تجوید قائم ہونے کا سبب میں ہوں اور میںہی اس شعبے کاسب سے پہلا شاگرد ہوں۔''اعلیٰ تعلیم : حضرت حکیم الاسلام رحمة اللہ علیہ نے قرآنِ کریم گیارہ سال کی عمر میں حفظ کرلیا تھا جس کے بعد ١٣٢٦ھ/ ١٩٠٨ء میں فارسی کی تحصیل کے لیے بٹھائے گئے اور ١٣٢٩ھ/ ١٩١١ء تک فارسی کی تعلیم مکمل ہوئی، ١٣٣٠ھ/ ١٩١٢ء میں درجۂ عربی میں داخل ہوئے اور اس طرح شعبان المعظم ١٣٣٧ھ/ ١٩١٩ء میں آپ دارُ العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے، واضح رہے کہ دینی تعلیم ہی رُوئے زمین میں سب سے اعلیٰ تعلیم ہے جو انسان کو صحیح انسان بناتی ہے ۔اساتذہ کرام : آپ کے اساتذہ ٔکرام میں اپنے وقت کے چنیدہ اللہ والے تھے جن میں حضرت مولانا قاری عبد الوحید خاں، حضرت مولانا محمد یٰسین عثمانی، (والد ِ محترم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب) جناب منشی منظور احمد، امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی، افضل المفسرین حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا محمدابراہیم بلیاوی، حضرت مولانا رسول خان ہزاروی، حضرت مولانا نبی حسن، حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی، والد محترم حضرت مولانا حافظ محمداحمد نانوتوی، حضرت مولانا میاں سیّد اصغر حسین دیوبندی، مفتی اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی اور سیّد العلماء حضرت مولانا سیّد محمد انور شاہ کشمیری علیہم الرحمة والرضوان شامل ہیں۔ فن ِسپہ گری میں حضرت امیر شاہ خاں کے شاگرد تھے ، فن خوش نویسی میں منشی محبوب علی میرٹھی کے اور جلدسازی میں جناب محمدعلی میر ٹھی سے رشتۂ تلمذ رکھتے تھے۔