ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
کو ملحوظ رکھتے ہوئے موردِ الطاف ِالٰہیہ بنیں۔یہ نکتہ جواہر التفسیر میں موجود ہے ۔نکتہ نمبر٢ : ' 'الف'' ببا عث ِ طوالت اور فتح کے صورتِ سر کشی رکھتاہے اور ''ب '' میں بسبب ِتساقط اور کسرہ کے انکسار اور صورت ِ عاجزی ہے، اسی وجہ سے ''ب'' نے یہ رُتبہ پایا کہ کلامِ الٰہی کا آغاز اِسی حرف سے ہوا حدیث شریف میں آیا ہے مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ کہ جس نے اللہ کے لیے تواضع کی اللہ اُس کو بلند کرتا ہے۔ شیخ سعدی نے عجیب انداز میں حدیث شریف کی ترجمانی کی ہے۔ دلاگر تواضع کنی اختیار شود خلقِ دُنیا ترا دوست دار تواضع کند ہر کہ ہست آدمی نہ زیبد ز مردم بجز مردمی تواضع بود حرمت افزائے تو کند در بہشت بریں جائے تو تواضع کلید در جنت است سر فرازی وجاہ را زینت است تواضع عزیزست کند در جہاں گرامی شوی پیش دلہا چو جاں اور جو کوئی سر اُٹھاتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس کو گراتا ہے تاکہ جاننے والے جان لیں کہ خدا وند کریم کو عاجزی پسندہے اور غرور و سر کشی سے ناراض ہوتا ہے، غالبًا اِسی وجہ سے حرف'' ب'' سے اپنے کلام کو شروع فرمایا۔نکتہ نمبر٣ : یوں کہیو کہ'' ب'' شفوی ہے اور ہر چند'' ف'' اور'' م'' بھی شفوی ہیں لیکن جس قدر کہ ''ب'' کے تلفظ سے لب ملتے ہیں اِس قدر'' میم'' کے تلفظ سے نہیں ملتے مگر ''ف ''کے تلفظ سے کسی قدر ملتے ہیں لیکن ''ف'' میں یہ خرابی ہے کہ نقطہ اِس کے اُوپر ہے اِس سے سر کشی متصور ہوتی ہے۔ نکتہ نمبر٤ : یا یوں سمجھیں کہ ''ب'' کے معنی میںاتصال معیت اور قربت ہے اور غرض تمام علموںسے یہی ہے