ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
قسط : ١فضائلِ بسم اللہ ( حضرت مولانا ابو معاویہ منظور احمد صاحب تونسوی )بسم اللہ کی لفظی تحقیق : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ بسم اللہ میں لفظ اسم کا الف کثرتِ استعمال کے باعث ساقط ہوگیا ہے اوراِس کے بدلے ب لمبی لکھی جاتی ہے ۔ بغوی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کا قول نقل کیا ہے کہ لوگو ! ب کودراز لکھو اور س کو اچھی طرح ظاہر کرو اور م کو گول لکھا کرواِس میں کتاب اللہ کی تعظیم ہے ،اسم سِمْو سے مشتق ہے نہ کہ وِسْم سے کیونکہ سُمَیّ اور سُمَیَّة اس کی دلیل ہے ۔ عربی زبان کاعام ضابطہ ہے کہ کسی لفظ کے مادّہ کے اصلی حروف تصغیر میں ظاہر کردیے جاتے ہیں اِس قاعدہ کے موافق اگر اسم کی اصل سِمْو نہ قرار دی جائے بلکہ وِسْم قرار دی جائے تو تصغیر میں وُسَیْم اور وُسَیْمَة ہونا چاہیے مگرایسا نہیں ہے بلکہ اسم کی تصغیر سُمَیّ اور سُمَیَّة آتی ہے معلوم ہوا کہ اِسم کی اصل سِمْو تھی اور سِمْو کی تصغیر سُمَیّ اور سُمَیَّة قاعدہ کے مطابق ہی ہے۔ اور حرف ''ب'' مصاحبت یااِ ستعانت یا تبرک کے لیے ہے اور اِستعانت اللہ کے ذکر سے ہوا کرتی ہے اور یہ ب اُس فعل سے متعلق ہے جو الرحیم کے بعد مقدر ہے یعنی اَقْرَأُ جیسے بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرھَا وَ مُرْسٰھَا میں اور یہ بات محقق ہے کہ اِبتدا بسم اللہ سے ہونی چاہیے۔ عبد القادر الدھاوی نے اربعین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا جو بڑا کام بسم اللہ سے شروع نہ ہو وہ نا تمام رہے گا۔