ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
(اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ)نکلے تو دل بھی اپنے ذلیل و ضعیف اور محتاج ہونے کا اِقرار کرے یعنی قلب میں بھی یہی ہو کہ بے شک بجز اللہ تعالیٰ کے کسی چیز کا نہ مجھے اِختیار ہے نہ کسی دُوسرے کو۔نماز میں قلب اور زبان کی موافقت : غرض تمام اَذکار و تسبیحات اور جملہ اَرکان وحالات میں ظاہر و باطن یکساں اور ایک دُوسرے کے موافق ہونا چاہیے اور سمجھ لو کہ نامۂ اَعمال میں نماز وہی لکھی جاتی ہے جو سوچ سمجھ کر پڑھی گئی ہو پس جتنا حصہ بغیر سمجھے ادا ہوگا وہ درج نہ ہوگا۔حضور ِ قلب حاصل کرنے کی تد بیر : ہاں یہ ضرور ہے کہ شروع شروع میںپوری طرح حضورِقلب قائم رکھنے میں تمہیں بہت دُشواری معلوم ہوگی لیکن اگر عادت ڈالو گے تو رفتہ رفتہ ضرور عادت ہوجائے گی اِس لیے اِس کی طرف توجہ کرو اور اِس توجہ کو آہستہ آہستہ بڑھاؤ مثلاً اگر تمہیں چار فرض پڑھنے ہوں تودیکھو کہ اِس میں حضورِ قلب تم کو کس قدر حاصل ہوا، فرض کرو کہ ساری نماز میں دو رکعت کے برابر تو دل کوتوجہ رہی اور دو رکعت کے برابر غفلت رہی تو اِن دو رکعتوں کونماز میں شمار ہی نہ کرو اور اُتنی نفلیں پڑھو کہ جن میں دو رکعت کے برا بر حضورِ قلب حاصل ہوجائے غرض جتنی غفلت زیادہ ہو اُسی قدر نفلوں میںزیادتی کرو حتی کہ اگر نفلوں میں چار فرض رکعتوں کا حضورِ قلب پورا ہو جائے تو اُمید کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے فرائض کا نقصان اِن نفلوں سے پورا فرمادے گااور اِس کی کمی کا تدارک نوافل سے منظور فرمالے گا۔ (جاری ہے)