ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
بہرحال یہ اعتراضات کیے جاتے ہیں،اُن معترضین سے یہ کہنا کہ حضور ۖ نے داڑھی رکھی تھی کافی نہیں ہوتا اس لیے آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ آپ دین ودُنیا کے ماہر ہیں آپ داڑھی کی شرعی حیثیت اور اُس کی حکمتیں بتلائیں تاکہ میں اوروں کوبھی بتلاسکوں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک مولوی صاحب سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ ہاں مسنون ہے مگر اب ضروری نہیں اس لیے بھی آپ کے فتوے کامنتظر ہوں اور اِسی پرعمل کروں گا ، فقط میرٹھ کالج کاایک طالب علمجواب : ٭ محترم المقام زید مجدکم السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ والانامہ باعث ِ سر فرازی ہوا، میں نہایت ہی عدیم الفرصت ہوں پھر اِس پر طرہ یہ ہوا کہ بعض بیماریوں میں مبتلا ہوگیا، آج کچھ طبیعت سنبھلی ہوئی ہے تو مختصر کچھ عرض کرتا ہوں مگر مقصد پیش کرنے سے پہلے ایک ضروری تمہید پر آنجناب غور فرمالیں : (الف) ہرنظامِ سلطنت میں مختلف شعبوں کے لیے کوئی نہ کوئی یونیفارم مقرر ہے، پولیس کا یونیفارم اور ہے فوج کا اور ہے، سوار کا اور ہے پیادہ کااور ہے، بری فوج کا اور ہے بحری فوج کا اور ہے، ڈاکخانہ کااور ہے ریلوے کا اور، پھر افسروں کااور ہے ماتحتوں کااور ،پھر اِس پر مزید تاکید اور سختی یہاں تک ہے کہ ڈیوٹی ادا کرتے وقت اگریونیفارم میں کوئی ملازم نہیں پایا جاتاتو مستوجب ِسزا شمار کیا جاتا ہے، خاص پاد شاہی فو جیوں کااور یو نیفارم ہے ندماء اور وزرائِ مقربین کااور، یہ حال تو صرف ایک ہی سلطنت کاہے کہ اُس کے مختلف شعبوں میں علیحدہ علیحدہ یو نیفارم رکھا جاتا ہے اور جس طرح ڈیوٹی دینے والا بغیر یو نیفارم مجرم قرار دیا جاتا ہے اسی طرح اگرکوئی دوسرے شعبہ کا یونیفارم پہن کر آجائے اور افسروں کواطلاع ہو جائے تووہ بھی اسی طرح یااس سے زیادہ مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ جس طرح بغیر یونیفارم کے آنے والا ملازم مجرم قرار دیاجاتا ہے اور جس طرح یہ اَمر ایک