ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
بِلا حضورِ قلب والی نماز کی صحت پر علماء کافتوی اور شبہ کا جواب : شاید تمہیں یہ شبہ ہو کہ جب نماز کے فرض اور واجب ادا کردیے جاتے ہیں تو علمائے شریعت اُس نماز کے صحیح ہوجانے کا فتوی دے دیتے ہیں خواہ معنی سمجھے ہوں یانہ سمجھے ہوں اور جب نماز صحیح ہوگئی توجو مقصود تھاوہ حاصل ہوگیا اِس سے معلوم ہوا کہ معنی کا سمجھنا نماز میں ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا سمجھ لو کہ علماء کی مثال طبیب کی سی ہے پس اگر کوئی لونڈی اَپاہج اور کیسی ہی عیب دار کیوں نہ ہواگر اُس میں رُوح موجود ہے تو طبیب اُس کودیکھ کرضرور یہی کہے گا کہ یہ زندہ ہے مردہ نہیں ہے۔ اِسی طرح نماز کی رُوح اور اعضائے رئیسہ کے موجود ہونے سے علماء فتوی دے دیں گے کہ نماز صحیح ہے اور فاسدنہیں ہے، ایسی صورت میں طبیب نے اور عالم نے اپنے منصب کے موافق جو کچھ کہا وہ صحیح کہا ہے مگر نماز تو شاہی نذرانہ اور سلطانی تقرب حاصل ہونے کی حالت ہے اور اِتنا تم خود سمجھ سکتے ہو کہ عیب دار کنیز اگرچہ زندہ ہے مگر سلطانی نذرانہ میںپیش کرنے کے قابل نہیں ہے بلکہ ایسی کنیز کا تحفہ پیش کرنا گستاخی ہے اور شاہی عتاب کا موجب ہے، اِسی طرح اگر ناقص نماز کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب چاہو گے تو عجب نہیں کہ پھٹے کپڑوں کی طرح لوٹادی جائے اور منہ پر ماردی جائے۔ الغرض نماز سے مقصود چونکہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے لہٰذا نماز کے سنن اور مستحبات وآداب میں جس قدر بھی کمی ہوگی اُسی قدر احترام و تعظیم میںکوتاہی سمجھی جائے گی۔نماز کی رُوح اور اعضاء : ٭ سوم : نماز کی رُوح کا زیادہ خیال رکھو یعنی نماز میں شروع سے اَخیر تک اِخلاص او ر حضور ِ قلب (دل کا متوجہ ہونا) قائم رکھو اور جو الفاظ زبان سے کہتے ہو یا جو کام اعضاء سے کرتے ہو اُن کا اَثر دل میں بھی پیدا کرو، اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب رکوع میں بدن جھکے تو دل بھی عاجزی کے ساتھ جھک جانا چاہیے اور جب زبان سے ''اللہ اکبر'' کہے تو دل میں بھی یہی ہوکہ بے شک اللہ سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے اور جب اَلحمد پڑھو تو دل بھی اللہ کی نعمتوں کے شکریہ سے لبریز ہو جس وقت زبان سے