ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
جواب نمبر ٢ : یہ ہے کہ آپ کا بسم اللہ کو بلند آواز سے پڑھنا جواز کے لیے تھا اور یہ فریق ِ ثانی کے ہاں بھی مسلَّم ہے۔بسم اللہ کو '' ب ''سے شروع کرنے میں نکتہ : ''ب'' اِستعانت کے معنی کے ساتھ ہے اس لیے کہ اِس میں ادب بھی ہے اور اظہارِ عبودیت بھی اور ساتھ ہی بندوں کی قدرت ِمستقلہ کی نفی بھی، یہ معنی آیت ( وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) کے زیادہ مناسب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام مبارک سے استعانت کا حکم شرع سے ثابت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرکین اکثر اوقات ہر کام میں اپنے معبودوں کے نام سے استعانت کرتے تھے تومومٔنین کواپنے معبود ِ حقیقی کے نام سے اِمداد طلب کرنے کا طریقہ تعلیم کیا گیا تاکہ مشرکین کے طریقہ کی تغلیط ہو جائے کہ تقرب اللہ کے نام سے حاصل کرنا چاہیے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تسمیہ ہر مومن کے قلب میںموجود ہوگا تو اِس سے بندہ کی جانب سے ''حول'' یعنی نیکی کرنے کی طاقت اور'' قوة ''برائی سے بچنے کی قوت کی نفی ہوجائے گی کہ تمام طاقتوں کا مرکز صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، بندہ کچھ نہیں اور یہی مقصود ہے عقائد کے باب میں۔بسم اللہ کے ''ب'' کو مکسور (زیر والا) کیوںلایا گیا ؟ بسم اللہ الر حمن الر حیم کے ''ب'' کو کسرہ دیاگیا ہے، کسرہ کا معنی ہے عاجزی اور خشوع وخضوع تو اِس کو مکسور لا کر اِس بات کی طرف اِشارہ کر دیاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتصال و تعلق اور قرب ِ ذات عاجزی اور ذلت ِ نفس کے ساتھ ہی حاصل ہو سکتا ہے، تکبر و سرکشی سے نہیں، جتنی انکساری و ذلت ہوگی اُتنی مقدار معرفت ِحق سے نصیبہ ور ہوگا چنانچہ علامہ آلو سی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اِس میں ایک راز ہے اور وہ راز یہ ہے کہ ''ب'' مرتبہ میں الف سے دوسرے نمبر پر ہے، الف مجردہ جو بسیط ہے اور مراتب میں تمام حروف پر مقدم ہے اِس کے ساتھ حق کے وجود کی طرف اشارہ ہے جو تمام موجودات پر مقدم ہے اور ''ب ''سے اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی اُن صفات کی طرف جن سے کائنات کا نقطہ وجود میں آیا (موجود ہوا)۔