ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
چشم پوشی سے کام لینے لگے ہیں اس لیے ہمارے اکثر بزرگوں کے حالات و خدمات ''اِن جدید مؤرخین'' کی اغراض کی نذر ہوگئے ہیں اس لیے ایسا ''جدید مؤرخ''اور اُس کی ''تاریخ'' عیب ہے، اُن بزرگوں میں جن کی تاریخی حالات و خدمات ''اغراض'' کی نذر ہوئے ایک ہمارے حضرت حکیم الاسلام قدس اللہ سرہ کی بابرکت شخصیت بھی شامل ہے۔ ذیل میں تاریخ کا جو اہم واقعہ تحریر میں لایا جا رہا ہے یہ راقم الحروف نے اپنے جد ِ امجد حضرت الاستاذ مولانا قاری شریف احمد صاحب نور اللہ مرقدہ سے بار ہا سنا جو اب تک سینوں میں محفوظ تھا ، اسے تاریخ کے اوراق میں ضرور جگہ ملنی چاہیے یہ اُس کا حق ہے اور یہ حق اس لیے بھی ہے کہ ''خطبات حکیم الاسلام'' کی نویں جلد ١ شائع ہوئی اُس میں حکیم الاسلام کی وہ تقریر بھی شامل ہے جو حکیم الاسلام نے پاکستانی شہریت ترک کرنے کے بعد ہندوستان کو دوبارہ اپنا وطن بنانے پر دارُ العلوم دیوبند میں کی تھی اور اُس مجلسِ وعط میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی، حضرت مولانا مفتی سیّد مہدی حسن صاحب، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی علیہم الرحمة جیسے اساتذہ اور اکابر موجود تھے، شائع ہوئی اِس کے بعد ضروری ہے کہ اِس واقعے کوتاریخ میں مناسب اور قرار ِواقعہ جگہ دی جائے۔ حضرت حکیم الاسلام ١٩٥٠ء میں ہندوستان سے پاکستان تشریف لائے تو میمن برادری کے بعض حضرات جوحضرت حکیم الاسلام سے بیعت واِرادت کا بھی تعلق رکھتے تھے، نے حکیم الاسلام کو روکنے کی کوشش کی اوراِس کے لیے انہوں نے حضرت حکیم الاسلام کی ایک تقریر کے دوران ایک تحریر پر ------------------------------١ یہاں خطباتِ حکیم الاسلام کی نویں جلد سے کتب خانہ مجیدیہ ملتان کی اشاعت والی جلد مراد ہے، مذکورہ کتب خانہ ہی '' خطباتِ حکیم الاسلام '' کااوّلین اور مخلص ناشر ہے، محترم حافظ بلال احمدصاحب مر حوم ابن حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب نے اِسے متعارف کرایا اور ان ہی کے ذریعہ سے اس کے جامع مولانا قاری محمد اِدریس ہو شیار پوری مدظلہ کا عظیم الشان کام کا تعارف ہوا لیکن جامع و مرتب نے زیادتی یہ فرمائی کہ اِسے دوسرے ناشرین میں تقسیم کرنا شروع کردیا یہ ایک اخلاقی اور علمی زیادتی ہے۔