ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
جواب : مگر علامہ پانی پتی اور دیگر محدثین نے کہا ہے کہ پہلی حدیث میں ابن عباس کا یہ قول کہ بسم اللہ الر حمن الر حیم ساتویں آیت ہے، فقط ابن عباس کا گمان ہے مرفوع حدیث نہیں اور ترمذی کی حدیث باعتبارِ اَسناد قوی نہیں۔ تیسری دلیل : کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورت کا جز ہے کیونکہ قرآن میں ہر جگہ اِسی خط سے لکھی گئی ہے جس خط سے تمام قرآن لکھا ہے ۔ تواِس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو اِس بات کی دلیل ہے کہ بسم اللہ داخلِ قرآن ہے نہ کہ اِس بات کی کہ وہ ہرسورة کا جزو ہے اور یہ کیونکر ہوسکتا ہے حالانکہ یہ صحیح حدیث ہے کہ جنابِ رسول اللہ ۖ نے سورہ ملک کی بابت فرمایا ہے سُوْرَة مِّنَ الْقُرْآنِ ثَلٰثُوْنَ آیَةً سورۂ ملک تیس آیتوں کی ہے اور اِس سورة کی آیتیں گننے والوں نے اتفاق کیا ہے کہ اس سورة میں بسم اللہ الر حمن الرحیم کو الگ کر کے تیس آیتیں ہیں۔ (٣) امام حمزہ کوفی، بعض شوافع اور اِمام احمد کا مذہب یہ ہے کہ بسم اللہ فقط سورہ فاتحہ کی جزو ہے اِس کی دلیل میں یہ حدیثیں پیش کی جاتی ہیں۔ ابن جُریج نے ابو ملیکہ اور اُنہوں نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ۖ نے فاتحة الکتاب پڑھی اور بسم اللہ الر حمن الرحیم کوایک آیت شمار کیا، الحمد للہ رب العالمین کو دوسری آیت ،اس طرح آپ نے سورہ فاتحہ کی سات آیتیں شمار کیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ۖ نے فرمایا فاتحة الکتاب کی سات آیات ہیں اور پہلی آیت بسم اللہ الر حمن الرحیم ہے۔ (اخرجہ طبرانی و بیہقی واِبن مردویہ)بسم اللہ کے متعلق ایک فقہی بحث : آیا بسم اللہ کو نماز میں پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نماز میں اِس کی قرأت جائز ہے تو کس طرح پڑھنا چاہیے، جہراً( یعنی بلندآواز سے ) یا سراً (آہستہ) پڑھنا چاہیے ؟