ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
قسط : ١حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی ( مولانا قاری تنویر احمد صاحب شریفی،کراچی ) علم و عمل کی دُنیا میں خانوادۂ قاسمی کسی تعارف کا محتاج نہیں، مشرق سے مغرب تک اور جنوب سے شمال تک اِس علمی خاندان کی جدو جہد خدمات آفتاب وماہتاب کی طرح روشن ،ہیں جس خاندان کی جدو جہد کے نتیجے میں دیوبند سے علمی چشمے پھوٹے اور دُنیا میں پھیلے اور برا برہی پھیلتے جارہے ہیں، پاک و ہند، برما، بنگلہ دیش، سمر قند، بخارا، ملائیشیا، افغانستان، افریقہ، نیپال، ممالک ِعربیہ، غرض جہاں بھی جائیں کوئی نہ کوئی دارُ العلوم دیوبند کا فاضل اور اُس فیوض و برکات سے متمتع انسان ضرورملے گا حرمین شریفین میں نظر دوڑائیے یہیں کے فیض یافتہ ملیں گے۔ ١٨٥٧ء میں ہندوستان کی مسلم حکومت کے زوال کے بعد سارے ہندوستان میں تاریکی ہی تاریکی تھی ،دین و دیانت، امن و سکون اور اخلاق و مروّت کا نام مٹنا شروع ہو چکا تھا بالخصوص مسلمان بڑی بے بسی اور کشمکش میں مبتلا تھے اور اِس کے اثرات پوری اسلامی دُنیا پر پڑ رہے تھے اِن مصائب وآلام کے عالَم میں قاسم العلوم و الخیرات سیّدنا الامام الکبیر حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ کمر کس کر اُٹھے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک متحدہ ہندوستان سے عیسائی پادریوں کو نکلنے پر مجبور نہ کردیا اور اُس زمانے میں دارُ العلوم کی بنیاد دیوبند جیسے گمنام قصبہ میں رکھی جو اشاعت ِ اسلام اور تحفظ ِ اسلام کی ایک عالمگیر بین الاقوامی یونیورسٹی بن گئی ،والحمد للہ۔ اِس یونیورسٹی کے ساتویں مہتمم اور متولی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ ہوئے، ذیل میں اِسی مبارک شخصیت کے مختصر حالات تحریر کیے گئے ہیں۔