ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
حضرت علامہ شبلی رحمةاللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ شبلی ہیں ؟ فرمایا نہیں بلکہ ب کے نیچے والا نقطہ ہوں۔ صفاتِ جمالیہ کو صفات ِ جلالیہ پر سبقت حاصل ہے جیسے حدیث شریف میں ارشاد ہے سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ ١ کہ میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے گئی۔'' ب'' مجرور میں اسی طرف اشارہ ہے اور اِس کو شروع میں لانے سے اِس بات کی طرف اِشارہ ہے کہ مدار ر حمت ِ الٰہی پر ہے جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ لَنْ یُّدْخِلَ اَحَدَکُمُ الْجَنَّةَ عَمَلُہ قِیْلَ حَتّٰی اَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، قَالَ حَتّٰی اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَ نِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَةٍ۔ (تفسیر رُوح المعانی) ''آپ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی انسان اپنے عمل کی بنا پرجنت میں داخل نہیں ہوسکتا صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کو بھی ! فرمایا ہاں میں بھی عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ '' شیخ اکبر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بسم کے ہمزہ کو اِس لیے حذف کیا گیا تاکہ درمیان میں فاصلہ نہ آئے یعنی خضوع و عاجزی کے بعد متصل رحمت کا حصول ہے۔بسم اللہ الر حمن الر حیم کے متعلق علمی تحقیق : نکتہ نمبر ١ : اُس قادرِ مطلق نے اپنے کلام قرآنِ مجید کی حرف ''ب ''سے کیوں ابتداء فرمائی ؟ غور سے سنیے گا : روزِ میثاق میں ( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ) کے جواب میں سب سے پہلے انسان کی زبان سے جو لفظ نکلا اُس لفظ کاآغاز بھی ''ب '' سے تھا یعنی بَلٰی پس جبکہ ب وہ اوّل حرف ہے جس سے اِبن آدم کے لب پہلے پہل آشنا ہوئے تویہاں بھی غالبًا حکمت ِالٰہی نے چاہا کہ افتتاحِ قرآن میں بھی اِسی حرف کی خصوصیت رہے تاکہ لوگ اُسی کے عہد کو یاد کر کے قرآن اور احکامِ قرآن کی تعمیل کریں( اَوْفُوْابِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ )''پورا کرو تم میرے عہد کو اور پورا کروں گا میں تمہارے عہدکو۔'' اَلْکَرِیْمُ اِذَا وَعَدَ وَفٰی ------------------------------١ بخاری شریف کتاب التوحید رقم الحدیث ٧٥٥٣