ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
مفادات کی حفاظت کی خاطر کی اور بڑے بھونڈے انداز میں کی، بھری مجلس میں اُس شخص نے دونوں ہاتھ اپنی سیرین پر متکبرانہ انداز میں رکھ کر حضرت حکیم الاسلام رحمة اللہ علیہ سے گرجدار الفاظ میں کہا : '' تو پاکستان میں شیخ الاسلام بننے کے لیے آیا ہے '' اُس متکبر شخص کا باپ بھی حضرت حکیم الاسلام کے پہلو میں اُسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اُسے اپنے لڑکے کی اِس حرکت پر کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ حضرت جد ِ امجد فرماتے تھے کہ اِس واقعہ کے بعد میںاپنے معمول کے مطابق حضرت حکیم الاسلام سے ملنے گیا تو آپ فرمانے لگے کہ ساری رات لیٹ نہیں سکتا ، لیٹتا ہوں تو بدن میں سو ئیاں چبھتی ہیں، چہل قدمی کرتے ہوئے ساری رات بیت جاتی ہے، ہر صبح کو ایک خط حضرت شیخ الاسلام کو لکھتا ہوں کہ مجھے دیوبند بلا لیں ، جب تک حضرت شیخ کا جوابی مکتوب نہیںآیا یہی کیفیت رہی، جواب جو آیا اُس میں حضرت شیخ الاسلام نے یقین دلایا تھا کہ میں تو آپ کے پاکستان قیام کو دارُالعلوم دیوبند کے مفاد کے خلاف سمجھتا تھا اب میں پوری کوشش میں ہوں کہ آپ کو ہندوستانی شہریت مل جائے۔ حضرت حکیم الاسلام نے کراچی سے دیوبند روانگی کے وقت میرے جد ِ امجد سے یہ بھی فرمایا تھا کہ ''قاری صاحب ! مجھے غیر سے کوئی شکایت نہیں، مجھے اپنوں نے بڑی تکلیف پہنچائی ہے۔'' اُدھر حضرت شیخ الاسلام نے آبروئے دیوبند حضرت حکیم الاسلام کے لیے جدو جہد فرمائی آپ امام الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کے پاس دہلی تشریف لے گئے ،مولانا آزاد وزیر تعلیم تھے اُن سے حضرت حکیم الاسلام نے فرمایا کہ آپ قاری طیب صاحب کے لیے اپنا اَثر رسوخ استعمال فرمائیں کہ انہیں ہندوستانی شہریت دے دی جائے، مولانا آزاد نے فرمایا'' حضرت چلے گئے تو جانے دیجئے۔'' حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا ''قاری صاحب دارُالعلوم دیوبند کی ضرورت ہیں انہیں ہرحال واپس آنا ہے'' اِس طرح مولانا آزاد اور وزیر اعظم ہندوستان جواہر لال نہرو کی کوششوں اور حکم سے حضرت حکیم الاسلام کو ایک مرتبہ پھر ہندوستانی شہریت مل گئی۔ '' (جاری ہے)