ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
'' اپنے گھروں کو قبریں نہ بنالو (کہ صرف آرام کرنے اور سونے کے کام میں لاؤ ، نہ نفلیں پڑھو نہ تلاوت کرو، نہ اللہ کا ذکر کرو) اور میری قبر کو عید نہ بناؤ (کہ اِس پر اکٹھے ہو کر تیوہار مناؤ عرس کرو) اور مجھ پر درود پڑھتے رہو تمہارا درود مجھے پہنچتا ہے تم جہاں بھی ہو۔ '' خلاصہ یہ کہ جو کام بظاہر اچھے معلوم ہوتے ہیںلیکن شریعت میں نہ اُن کے متعلق واضح ہدایت ہے اور نہ کوئی اِشارہ ہے اُس کو اگر دین کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے تو وہ ''بدعت'' ہے، مرنے کے بعد میت کے لیے جو کام کیے جاتے ہیں یا قبرستان میں یا مزارات پر پہنچ کر جو کام کرتے ہیں وہ عمومًا اچھے نیک ثواب یا متبرک سمجھ کر کیے جاتے ہیں لہٰذا وہ بد عت ہوں گے اگر شریعت میں اُن کے متعلق ہدایت یا اجازت نہیں ہے۔فریضۂ تربیت : بیوی بچوں اور ضرورت مند ماں باپ اور مفلس و محتاج رشتہ داروں کا خرچ بر داشت کرنا آپ کی ایک تمنا رہتی ہے اور آپ اِس کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ بیوی اور بچے تندرست رہیں، وہ بیمار پڑجاتے ہیں تو آپ دل کھول کر علاج کرتے ہیں اور اِس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں آپ اُن کو ہر طرح آرام پہنچاتے ہیں اُن کے لیے مکان بناتے ہیں جائیدادیں خریدتے ہیں اور اُن کی زندگی کو شاندار دیکھنا چاہتے ہیں یہ سب کچھ آپ اِس مادّی زندگی کے لیے کرتے ہین جس کو اَلْحَیَاةُ الدُّ نْیَا دُنیاوی زندگی یاموجودہ زندگی کہا جاتا ہے جو چند روزہ ہے جو ختم ہونے والی ہے اگر سو سال سواسو سال کی عمر ہوگئی تب بھی چند روزہ ہی ہے مگر ہر مسلمان کا عقیدہ ہے اور اتنی بات تو غیر مسلم بھی مانتے ہیں کہ یہ زندگی ختم ہوجاتی ہے مگر انسان ختم نہیں ہوتا انسان پھر بھی باقی رہتا ہے پھر بھی وہ زندہ رہتاہے مگر اُس زندگی کانام اَلْحَیَاةُ الآخِرَةُ آخروی زندگی ہے جو موت کے بعد سے شروع ہوتی ہے پھر اُس کے ختم ہونے کی حد نہیں، قرآنِ حکیم نے اسی کو حقیقی زندگی فرمایا ہے ( اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ) ١ ''بے شک دارِ آخرت ------------------------------١ سُورة العنکبوت : ٦٤