ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
ان روایات کے مثل اور بہت سی روایتیں کتب ِ حدیث میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں مشرکین اور مجوس داڑھی منڈاتے تھے اور مونچھیں بڑھاتے تھے جیسا کہ آج عیسائی اور ہندو قوم کر رہی ہے اور یہ اَمر اُن کے مخصوص یونیفارم میں داخل تھا، بنابریں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو دوسرے یونیفارم کا جو کہ اُن کے یونیفارم کے خلاف ہو حکم کیا جائے، نیز یہ بھی معلوم ہو گیا کہ لوگوں کا داڑھی بڑھانے کے متعلق یہ کہنا کہ یہ عمل اُس زمانہ میں عرب کے اُس رواج کی وجہ سے ہے جو کہ اُس میں جاری تھا کہ داڑھیاں بڑھاتے تھے اور مونچھیں کٹاتے تھے غلط ہے بلکہ اُس زمانہ میں بھی مخالفینِ اسلام کا یہ شعار تھا۔ جس طرح اس قسم کی روایات ِ مذکورہ بالا سے یہ معلوم ہوا کہ یہ یونیفارم مشرکین اور مجوس کا تھا اس لیے ضروری ہواکہ مسلمانوں کو اِن کے خلاف یونیفارم دیا جائے تاکہ تمیز کامل ہو اِسی طرح حدیث عَشْر مِّنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَ اِعْفَائُ اللِّحْیَةِ الخ ١ بتلا رہی ہے کہ بارگاہِ خداوندی کے خاص مقربین اور ندیموں (انبیاء اور مرسلین علیہم السلام) کے یونیفارم میں سے مونچھوں کاکتروانا اور داڑھی کا بڑھاناہے کیونکہ فطرت اِن ہی اُمور کو اِس جگہ میں کہاگیا ہے جوکہ انبیاء علیہم السلام کے شعار میں سے تھے جیسا کہ بعض روایتوں میں بجائے لفظ فطرت کے'' مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْن'' یااس کاہم معنی موجودہے۔ خلاصہ یہ نکلا کہ یہ ایک خاص یونیفارم اور شعار ہے جوکہ مقربانِ بارگاہِ الو ہیت کاہمیشہ سے یونیفارم رہا ہے اورپھردوسری قومیں اِس کے خلاف کو اپنا یونیفارم بنائے ہوئے ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو توڑنے والی اور اُس سے بغاوت کرنے والی ہیں اس لیے دو وجہ سے اس یونیفارم کواِختیار کرنا ضروری ہوا۔ (٢) علاوہ ازیں ایک محمدی کوحسب ِاقتضائے فطرت اور عقل لازم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آقا ------------------------------١ سُنن ابوداود کتاب الطہارة رقم الحدیث ٥٣