ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
بنادیتا ہے خود اُس کی قوم ان الفاظ کونہیں سمجھ سکتی اور با لخصوص اس کا مذہبی واعظ تو تقریبًا اَسی نوے فیصدی الفاظ سنسکرت اور بھاشا کے بولتا ہے مگربات یہ ہے کہ اس کی قوم اس کو بنظر استحسان ہی دیکھتی ہے، بڑے بڑے گروکل اور ودیا پیٹھ اس زبانِ مردہ کوزندہ کرنے کے لیے جاری کیے جارہے ہیں حالانکہ روئے زمین پر کوئی قوم یا ملک اس زبان کا بولنے والا موجود نہیں ہے اور غالبًا پہلے کسی زمانہ میں بھی یہ زبان عام پبلک زبان نہ تھی وہ انتہائی کوشش کررہا ہے کہ تمام ہندوستان میں اس کے قدیم رسم خط کو جاری کیا جائے حالانکہ وہ نہایت ناقص رسمِ خط ہے وہ اپنی انتہائی کوشش کر رہا ہے کہ دھوتی باندھنا نہ چھوڑے ، ایم ایل سی، ایم ایل اے، اسمبلی کا پریزیڈنٹ، کونسل کا پریزیڈ نٹ، اُس کی قوم کا جج ڈپٹی کلکٹر وغیرہ وغیرہ دھوتی باندھ کر سر کھول کر قمیص پہن کر بر سر اجلاس آتا ہے حالانکہ دھوتی میں پاجامہ سے بدرجہا زیادہ کپڑا خرچ ہوتا ہے، پردہ بھی پورا نہیں ہوتا ،سردی اور گرمی سے بھی پوری حفاظت نہیں ہوتی، باوجود اِن سب امور کے پاجامہ پہننا اختیار نہیں کرتا چوٹی سر پر رکھنا جنیو ١ لگانا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ کیا چیزیں ہیں ؟ کیا یہ قومی شعار، قومی یونیفارم نہیں ہے ؟ کیا اسی وجہ سے وہ اپنی ہستی کی صورت نہیں نکال رہا ہے ؟ گرو نانک اور اس کے اتباع نے چاہا کہ اپنے تابعداروں کی مستقل ہستی قائم کریں توبال کا نہ منڈانا داڑھی کانہ کترانا یا منڈانا، لوہے کے کڑے کا پہننا، کرپان کارکھنا قومی یونیفارم بنادیا، آج اِس شعار پر سکھ قوم مری جاتی ہے اس گرم ملک میں طرح طرح کی تکالیف سہتی ہے مگر بالوں کاکتروانا یامنڈانا قبول نہیں کرتی اگر وہ ان چیزوں کو چھوڑدے دُنیا سے اس کی امتیازی ہستی اور قومی موجودیت فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی۔ مذکورہ بالا معروضات سے بخوبی واضح ہے کہ کسی قوم اور مذہب کادُنیا میں مستقل وجود جب ہی قائم ہو سکتا ہے اور باقی جب ہی رہ سکتا ہے جبکہ وہ اپنے لیے خصوصیات وضع قطع میں، تہذیب و کلچر میں، بود و باش میں، زبان اور عمل میں کر لے، اس لیے ضروری تھا کہ مذہب اِسلام جوکہ اپنے عقائد اخلاق ------------------------------١ وہ بٹا ہوا دھاگہ جسے ہندو لوگ بُدھی کی طرح گلے میں ڈالتے ہیں۔محمود میاں غفرلہ