ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
یونیفارم کو اختیار کرلیا،دھوتی، چوٹی، ساڑھی، رسم ورواج وغیرہ میںانہیں کے تابع ہو گئے اس لیے ان کی ہستی مٹ گئی، باجود اختلاف ِ عقائد سب کو ''ہندو قوم'' کہا جاتاہے اورکسی کی قومی ہستی جس سے اُس کی امتیازی شان ہو باقی نہیں۔ ہاں جن قوموں نے امتیازی یونیفارم کو قائم رکھا وہ آج اپنی قومیت اور ملیت کاتحفظ اور امتیاز رکھتے ہیں۔ پر شین قوم ہندوستان میں آئی، ہندو قوم اور راجاؤں نے ان کوہضم کرنا چاہا، عورتوں کا یونیفارم بدلوادیا، معیشت اور زبان بدلوادی مگر مردوں کی ٹوپی نہ بدلی گئی بالآخر آج زندہ قوم اور موجود ممتاز ملت ہیں سکھوں نے اپنی امتیازی وردی قائم رکھی سر اور داڑھی کے بالوں کو محفوظ رکھا آج اُن کی قوم امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور زندہ قوم شمار کی جاتی ہے۔ انگریز سولہویں صدی کے آخر میں آیا تقریبًا ڈھائی سو برس گزر گئے ہیںنہایت سرد ملک کا رہنے والا ہے مگراُس نے اپنا یونیفارم کوٹ پتلون ،ہیٹ، کالر، نکٹائی اِس گرم ملک میں بھی نہ چھوڑا یہی وجہ ہے کہ اُس کو پینتیس کروڑ والا ملک اپنے میں ہضم نہ کرسکا اُس کی قوم اور ملت علیحدہ ملت ہے اُس کی ہستی دنیا میںقابلِ تسلیم ہے۔ مسلمان اِس ملک میں آئے اور تقریبًا ایک ہزار برس سے زائد ہوتا ہے کہ جب سے آئے ہیں اگر وہ اپنے خصوصی یونیفارم کومحفوظ نہ رکھتے توآج اسی طرح ہندو قوم میں نظرآتے جیسے کہ مسلمانوں سے پہلے آنے والی قومیں ہضم ہو کر اپنانام و نشان مٹاگئیں، آج بجز تاریخی صفحات کے ان کا نشان کرۂ ارض پر نظر نہ آتا۔ مسلمانوں نے نہ صرف یہی کیا کہ اپنا یونیفارم محفوظ رکھا بلکہ یہ بھی کیا کہ اکثریت کے یونیفارم کو مٹا کراپنا یونیفارم پہنانا چاہا چند ہزار تھے اور چند کروڑ بن گئے صرف یہی نہیںکیا کہ پاجامہ، کرتہ، عبا، قبا، عمامہ، دستار محفوظ رکھا بلکہ مذہب ،اسمائِ رجال ونساء ١ تہذیب و کلچر، رسم و رواج، زبان وعمارت ------------------------------١ مردوں اور عورتوں کے نام