ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2017 |
اكستان |
|
نظامِ سلطنت اور حکومت میں ضروری خیال کیاجاتاہے اسی طرح اقوامِ وملل میں بھی ہمیشہ اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے، اگر آپ تفحص کریں گے تو انگلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا ،امریکہ وغیرہ کوپائیں گے کہ وہ اپنے اپنے نشانات جھنڈے یونیفارم علیحدہ علیحدہ رکھتے ہیں، واقف کارشخص ہر ایک کے سپاہی کو دوسرے سے تمیز کرسکے گااوراِسی سے میادین جنگ اور ملکی و سیاسی مقامات میں امتیاز کیاجاتا ہے ، ہر قوم اورہر ملت اپنے اپنے یو نیفارم اور نشانوں کو محفوظ رکھنا از حد ضروری سمجھتی ہے بلکہ بسا اوقات اس میں خلل پڑنے سے سخت سے سخت وقائع پیش آجاتے ہیں ،کسی حکومت کے جھنڈے کو گرا دیجئے کوئی توہین کردیجیے کہیں سے اُکھاڑ دیجئے دیکھئے کس طرح جنگ کی تیاری ہوجاتی ہے ،یہ یونیفارم صرف لباس ہی میں نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی جسم میں بھی بعض بعض علامتیں رکھی جاتی ہیں، بعض قوموں میں ہاتھ میں یا جسم میں گودنا گودا جاتا ہے بعض میں کان یا ناک چھید کرحلقہ ڈالا جاتا ہے بعض میں بال باقی رکھے جاتے ہیں بعض میں سر پر چوٹی رکھی جاتی ہے۔ الغرض یہ طریقہ امتیاز شعبہ ہائے مختلفہ اور اقوام و حکومت اور ملل کا ہمیشہ سے اور تمام اقوام میں اطرافِ عالم میں چلا آتا ہے اگر یہ نہ ہوتوکوئی محکمہ اور کوئی قوم اورکوئی حکومت دوسرے سے ممیز نہ ہوسکے، ہم کو کس طرح سے معلوم ہو سکتاہے کہ یہ فوجی ہیں یا ملکی، پولیس ہے یا ڈاکیا، ریلوے کا ملازم ہے یا بحری جہازوں کاافسر ہے یا ماتحت جرنیل ہے یا میجر،اسی طرح ہم کس طرح جان سکتے ہیں کہ یہ شخص روسی ہے یا فرانسیسی، امریکن ہے یا آسٹرین وغیرہ وغیرہ، ہرزمانہ اور ہر ملک میں اس کا لحاظ ضروری سمجھا گیاہے۔ (ب) جو قوم اور جو ملک اپنے یونیفارم کی محافظ نہیں رہی وہ بہت جلد دوسری قوموں میں منجذب ہوگئی حتی کہ اُس کا نام و نشان تک بھی باقی نہیں رہا، اسی ہندوستان میں یونانی آئے،سنتھین آئے، افغان آئے، آریہ آئے، تاتاری آئے، ترک آئے، مصری اور سو ڈانی آئے مگر مسلمانوں سے پہلے جوقومیں بھی آئیں آج اُن میں سے کیا کوئی ملت یا قوم ممیز ہے ؟ کیا کسی کی بھی ہستی علیحدہ بتلائی جا سکتی ہے ،سب کے سب ہندو قوم میں منجذب ہوگئے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ انہوں نے اکثریت کے