ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
''آپ بلندیوں کے خواہاں ہو اور پھر رات کو سوتے ہو ؟ موتیوں کے طالب سمندر میں غوطے لگاتے ہیں۔ بلند مراتب کے لیے مضبوط اور بلند عزائم چاہئیں، عظمتیں اوررفعتیں بقدرِ مشقت ملتی ہیں۔ مشقت کے بغیر عزتوں کے طالب نا ممکن حصول کی تلاش میں عمر ضائع کر رہے ہیں۔'' اِمام محمد بن الحسن الشیبانی رحمة اللہ علیہ سے جب زیادہ دیر تک جاگنے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا لوگ تو یہ اطمینان کر کے سو جاتے ہیں کہ کوئی مسئلہ پیش آیا تو محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ لیں گے میں کس پر اعتماد کر کے سو جاؤں ؟ مرغ سحر کی نغمہ سنجی جب آپ کے مطالعہ میں خلل کا باعث بنی تو اُسے ذبح کرادیا۔ کتب بینی، حصولِ علم اور اِشاعت ِعلم کے اِس جنون نے بہت سارے اَساطینِ اُمت کو رشتہ ٔ اَزدواج میں منسلک ہونے سے باز رکھا، اُنہوں نے علم کورشتہ اَزدواج پر ترجیح دی۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمة اللہ علیہ نے ایسے شموسِ بازعہ کے اَسمائے مبارکہ اور اُن کے مختصر احوال ''العلماء العزاب'' نامی کتاب میں جمع فرمائے ہیں اور شیخ ہی کی کتاب ''صفحات من صبر العلمائ'' عاشقِ علم کی ایک حیرت انگیز داستان اور اُن کی زندگیوں کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے، فقیر کی خواہش ہے کہ ہر طالب علم کے لیے صرف اِس کے مطالعہ کی نہیں بلکہ سرہانے رکھنے کی ضرورت ہے۔ علم میں تعمق، گہرائی، رُسوخ واستحضار کے لیے آرام طلبی، آرام دہ خواب گاہوں اور نرم بستروں کی نیندیں، جگری دوستوں کی قہقہوں بھری طویل مجلسیں اور بزم آرائی، موبائل اور کمپیوٹر کے فضول استعمال سے کنارہ کش ہونا پڑے گا بلکہ اِس لیلائے مرام کو پانے کے لیے صحرائے عشق میں آبلہ پائی واحد راستہ ہے، اِس عظیم مقصد کے لیے دُنیا کو ترک کرناپڑے گا اور دُنیا کے حسن کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔ حضرت اِمام ابویوسف رحمة اللہ علیہ کا یہ جملہ اپنے اندر کتنی قوت و معنویت رکھتا ہےاَلْعِلْمُ لَا یُعْطِیْکَ بَعْضَہ حَتّٰی تُعْطِیَہ کُلَّکَ۔