ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب تھے مگر یہ حکم پہلے تھا جمہور کا قول ہے کہ اب ان کی حرمت منسوخ ہوگئی ) قریش ِ مکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور کعبہ شریف کے متولی بھی تھے جو اُن کے جد ِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا تھا، ان لو گوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت میں سے جوباتیں باقی رہ گئی تھیں اُن میں حج کرنا اور چار مہینوں کو محترم سمجھتے ہوئے اُن میں قتل و قتال کو حرام سمجھنا بھی تھا لیکن اُن میں اور عرب کے دیگر قبائل میں جہالت کی وجہ سے شرو فساد اور جنگ و جدال ایک پیشہ بن کر رہ گیا تھا اِسی وجہ سے وہ کبھی اِن مہینوں میں سے کسی محترم مہینہ میں لڑائی کی ضرورت محسوس کرتے تو اپنی طرف سے اُس مہینہ کو مؤخر کر دیتے مثلاً ماہِ محرم کو صفر اور صفر کو محرم قرار دے کر جنگ کر لیتے تھے اِس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مہینہ حرمت والا تھا اُس کو اپنی طرف سے حلال اور جو مہینہ حلال تھا اُسے اپنی طرف سے حرام قرار دیتے تھے ،قرآنِ کریم نے سب سے پہلے اِس رسمِ جاہلیت کی تر دید کی اور اِسے گمراہ کن طریقہ بتلایا( اِنَّمَا النَّسِیْئُ زِیَادَة فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ) ١ ''نَسِیْیء '' یعنی مہینوں کی حرمت کوآگے بڑھا دینا کفر میں ترقی کرنا ہے جس سے کافر لوگ گمراہ کیے جاتے ہیں۔'' (انوار البیان ج ٢ ص ٥٣١) معلوم ہوا کہ ماہِ صفر نامبارک سمجھنے کے علاوہ اِس کے متعلق یہ نسییء والی رسم بھی گمراہ کن خرافات میں سے ایک تھی اس لیے رحمت ِ عالم ۖ نے ماہِ صفر کے متعلق اُن تمام خرافات اور توہمات کی کلیةً نفی فرمادی بلکہ اِس کے علاوہ بھی جو توہمات تھے اُن سب کی بھی تر دید فرمائی اِرشاد فرمایا: لَاعَدْوٰی وَلَاھَامَةَ وَلَانَوْئَ وَلَا صَفَرَ چھوت چھات یعنی ایک کی بیماری کا حکمِ الٰہی کے بغیر خود بخود کسی اور کو لگ جانا، کسی چیز سے بدفالی اور نحوست لینا، اُلو وغیرہ کو منحوس سمجھنا اور صفر کے جملہ توہمات سب کے سب باطل اور بے حقیقت ہیں آپ نے صفر کے منحوس ہونے کی نفی فرما کر اُس کے'' مظفر'' ہونے کو واضح فرمادیا۔ اس مفہوم کی روایتیں حدیث کی کتابوں میں بکثرت وارد ہوئی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ ١ سُورة التوبہ : ٣٧