ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
مریضوں کے ساتھ اور ایک سمجھدار اور مہربان مربی کو اپنے بچوں اور اہلِ خاندان کے ساتھ ہوتی ہے لہٰذا اسلام کو ضرور بالضرور اُن نا سمجھ اور نادان مریضوں اور بچوں اور جاہل بے وقوف اہلِ خاندان سے طرح طرح کی تکلیفوں اور نا انصافیوں کا دوچار ہونا لازم ہے، وہ جو کچھ جو ر و جفا بے عقلی اور بے انصافی کریں اُن کی طبعی اور لازمی بات ہوگی اور اِس مصلح حکیم کو جس قدر فراخ دلی اور عالی حوصلگی ہمدردی، تحمل وبرداشت وغیرہ کرنا پڑے اُس کا فرضِ منصبی ہوگا ،ہاں جس طرح ایک طبیب ِ حاذق اور شفیق ڈاکٹر کا فرض یہ بھی ہوگا کہ اگر مریض میں مادّہ فاسد نہایت شد و مد سے جا گزیں ہو کر تمام جسم کو خراب کر رہا ہو آئندہ کو اُس سے طرح طرح کے اندیشے ہوں اور کسی صورت سے اُس کادبانا اور تحلیل کرنا ممکن نہ ہو تومسہل کے ذریعہ یا نشتر کے وسیلہ سے اُس کا اِس قدر اخراج کردے کہ جسم کی اصلاح ممکن ہو جائے اِسی طرح کبھی کبھی مخصوص صورتوں اور احوال میں اسلام کو بھی محض اصلاحِ عالمِ انسانی کی غرض سے تلوار اُٹھا کر شخص اکبر (عالمِ شہادت) کو مسہل دینا اور اُس کے دُنبل ١ میں نشتر لگا کر مادّہ فاسد کو نیست و نابود کردینا ضروری ہوگا جس کو'' جہاد'' کہتے ہیں۔ ٢ جب عقلمند اور بے وقوف، متمدن اور وحشی، متبع قانون اور آزاد ٣ ، عالم اور جاہل کا مقابلہ ہوگا تو ہمیشہ صنف ِ اوّل پر اُن اُن مظالم کی بو چھاڑ ہوگی کہ وہ خود اُن کے کرنے سے عاجز ہوگی اِس کو عقل و تمدن قانون اور علم میدانِ انتقام میں بے وقوفی، وحشت آزادی اور جہالت کی کار روائیوں سے روکیں گے اور مجبور کریں گے کہ وہ اِس جگہ میں انسانیت اور قانون کو ہاتھ سے نہ جانے دے مگر صنف ِ ثانی حق کو چھپائے گی سچائی کو دبائے گی خود غرضی کی داد دے گی اور تعصب پر کار بند ہوگی باطل پرستی اپنا شعار بنائے گی ١ پھوڑا ٢ یعنی تصور یہ ہے کہ پورا عالم انسانی ایک جسم ہے اور یہ اکابر مجرمین فرعون صفت جو راہِ حق میں حائل ہیں جنہوں نے دوسرے انسانوں کو یہاں تک دبا رکھا ہے کہ وہ اپنے متعلق اپنے ضمیر کی آواز پر بھی آزادی سے عمل نہیں کر سکتے، یہ فرعون صفت سر غنہ جسمِ انسانی کا دُنبل ہیں جس کے متعدی اثرات پورے جسم کو فاسد کررہے ہیں پس اِس مادّہ فساد کا آپریشن کر دینا ضروری ہے،جہاد کی حدت و شدت اِسی آپریشن کی حدتک رہتی ہے اوریہی اِس کی غرض و غایت ہے۔ ٣ آوارہ