ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
نہیں سمجھ سکتے ۔ دُوسری بات یہ ہے کی خود نبی پاک ۖ اُن کے سامنے ایک کھلی کتاب تھے ،اَوّلاً تو وہ اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے قرآن کے ظاہر کو سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً سرورِ کائنات ۖ کے عمل سے بھی وہ بہت کچھ سمجھ لیتے وہ ایک عملی تعلیم تھی ۔ثالثاً اِس کے باوجود جو بات سمجھ نہ آتی و ہ سرورِ کائنات ۖ سے پوچھ لیتے، اِس لیے صحابہ کرام اِن علوم کے محتاج نہ تھے ۔ اِس کے باوجود اَعلام المو قعین میںعلامہ اِبن قیم لکھتے ہیں وہ صحابہ کرام جو قرآن کے ظاہرو باطن دونوں پر دسترس رکھتے تھے اور قانونِ شریعت کے ماہر تھے یعنی مجتہدین و فقہا ء بن کر اِجتہاد و فقاہت کے منصب پر فائز ہوئے وہ ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ میں سے صرف ایک سو تیس تھے یہ بھی باقی صحابہ کرام ا ور تابعین کے لیے شرح کی ضرورت کو پورا کرتے۔ اِسی طرح تابعین میں بھی قانونِ شریعت کی ماہر شخصیات پیدا ہوئیں اُن میں سے مدینہ کے سات تابعین فقہا ئِ سبہ کے نام سے معروف ہیں : (١)سعید بن المسیب (٢) عروة بن الزبیر (٣) قاسم بن محمد بن اَبی بکر الصدیق (٤)خارجہ بن زیدبن ثابت (٥) عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود(٦ ) سلیمان بن یسار (٧)سالم بن عبداللہ بن عمر ،اپنے وقت میں یہ بھی قانونِ شریعت کی شر ح کرکے اُس ضرورت کو پورا کرتے۔ جب اِس اِجتہاد و فقاہت والی اَعلیٰ اِستعداد میں کمی بلکہ نابود ہونے کے حالات پیدا ہونے والے تھے تو اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت کے اِمام اعظم اَبو حنیفہ جو اَصاغر تابعین میںسے ہیں اللہ تعالیٰ نے اِن کے اور اِن کے تلامذہ کے ذریعے قانونِ شریعت مدّون کرایا پھر اِس تدوین کے عمل میں مزید ترقی ہوئی، اَب ہمیں اِن علوم کی دو وجہ سے ضرورت ہے ،ایک مدونہ کتب کو سمجھنے کے لیے اور پھر اِن مدونہ شروح قرآن و حدیث کی روشنی میں قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے بلکہ قدیم عربی زبان جو قرآن وحدیث اور اِن مدونہ کتب کی زبان ہے اُس کو سمجھنے کے لیے تو آج کے جدید عرب بھی محتاج ہیں وہ بھی اِن علوم کوپہلے پڑھتے ہیں پھر سمجھتے ہیں تو ہم غیر زبان کے عجمی لوگ کیسے مستغنی ہوگئے۔ (٦) جب کتاب وسنت کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں جیساکہ ہمارے اُردو میں