ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
ذکر کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ اَولاد کے اِس حق کا اِحساس ہمیں فطری اور طبعی طور پر بھی ہے۔ ہاں اَولاد کے جس حق کی اَدائیگی میں ہم سے عمومًا کوتاہی ہوتی ہے وہ اُن کی دینی اور اَخلاقی تربیت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کیا ہے کہ ہم اپنی اَولاد اور اہل و عیال کی تربیت اور نگرانی اِس طرح کریں کہ مرنے کے بعد وہ جہنم میں نہ جائیں ،قرآن شریف میں ہے : ( یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا ) (سُورة التحریم : ٦ ) ''اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنی آل اَولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔'' اَولاد کو اچھی تربیت کی فضیلت رسول اللہ ۖ نے ایک حدیث میں اِس طرح بیان فرمائی ہے : ''ماں باپ کی طرف سے اَولاد کے لیے اِس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں کہ وہ اُن کی اچھی تربیت کرے۔'' بعض لوگوں کو اپنی اَولاد میں لڑکوں سے زیادہ محبت اور دلچسپی ہوتی ہے اور بے چاری لڑکیوں کو وہ بوجھ سمجھتے ہیں اور اِس واسطے اُن کی خبر گیری اور تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں اِس لیے اِسلام میں لڑکیوں کی اچھی تربیت کی خصوصیت سے تاکید کی گئی ہے اور اِس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ،ایک حدیث میں ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ : ''جس شخص کی بیٹیاںیا بہنیں ہوں اور وہ اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرے اور اُن کو اچھی تربیت دے (اور مناسب جگہ) اُن کی شادی کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کوجنت دے گا۔'' میاں بیوی کے حقوق : اِنسانوں کے باہمی تعلقات میں میاں بیوی کا تعلق بھی ایک اہم تعلق ہے اور اِن دونوں کا گویا چولی دامن کا ساتھ ہے، اِس لیے اِسلام نے اِس کے متعلق بھی نہایت صاف صاف اور تاکیدی ہدایتیں فرمائی ہیں۔ اِس بارے میں اِسلام کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی پوری خیرخواہی اور فرمانبرداری کرے اور اُس کی اَمانت میں کسی طرح کی خیانت نہ کرے۔