ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
علی اُٹھے تو اُن کے چہرہ پر بَل تھا، دعویٰ سنا گیا، مدعی جھوٹا ثابت ہوا وہ چلا گیا تو حضرت عمر نے حضرت علی سے پوچھاجب اِن کو کھڑے ہو کر جواب دینے کو کہا گیا تو وہ چیں بجبیں تھے،کیا وہ یہودی کے برابر کھڑے ہو کر جواب دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ حضرت علی نے جواب دیا کہ یہودی کے برابر کھڑے ہونے میں چیں بجبیں ہونے کا سوال نہ تھا، مگرجب اُن کو اَبو الحسن کہہ کر کھڑے ہونے کو کہا گیا تو کنیت سے پکارنا نشانِ عزت ہے خیال ہوا کہ کہیں یہودی یہ نہ سمجھے کہ عدالت کو مدعا علیہ کا خاص لحاظ ہے اِسی لیے مدعی کے مقابلہ میں عزت کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے، اگر وہ ایسا سمجھ لیتا تو ہماری عدالت پر دَھبہ لگتا۔'' (اِسلام میں مذہبی رواداری ص ١١٠) (٣) محمد بن عمرو حضرت عمر کی عدالت میں : علامہ اِبن جوزی تحریر فرماتے ہیں : ''حضرت اَنس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر کی خدمت میں حاضر تھے کہ اَچانک ایک مصری شخص آیا اور آکر کہنے لگا : اَمیر المومنین آپ کا یہ دَربار آپ کے ذریعہ پناہ حاصل کرنے والوں کی جگہ ہونا چاہیے (مطلب یہ ہے کہ میں آپ سے پناہ طلب کرنے آیا ہوں مجھے پناہ ملنی چاہیے) آپ نے فرمایا : تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ وہ بولا کہ عَمرو بن عاص (گورنر مصر) نے مصر میں کچھ گھوڑے دوڑائے ،وہ گھوڑے میرے گھوڑے کی طرف بڑھے( تاکہ اِس سے آگے ہوجائیں جبکہ میرا گھوڑا آگے تھا) جب لوگوں نے اُن گھوڑوں کو دیکھا توعمرو بن عاص کا بیٹا محمد اُٹھا اور کہنے لگا فَرَسِیْ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ رب ِ کعبہ کی قسم یہ میرا گھوڑا ہے جب وہ گھوڑا میرے قریب ہوا تو میں نے اُسے پہچان لیا (کہ یہ میرا ہی گھوڑاہے) چنانچہ میں نے کہا رب ِکعبہ کی قسم یہ تو میرا گھوڑا ہے محمد بن عمرو اُٹھا اور مجھ پر کوڑے برسانے لگا اور کہنے لگا کہ لے یہ کوڑے کھا (تجھے