ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
سب طریقوں کی جگہ بفے سسٹم نے لے لی ہے کہ ''دستِ خود دہانِ خود'' یعنی خود ہی پلیٹ اُٹھائیں خود ہی سالن وغیرہ نکالیں اور پھر جانوروں کی طرح شادی ہال میں ٹہل ٹہل کر جگالی کریں، بھلے ہی اچھی طرح کھایا نہ جائے مگر نام نہاد ''اِسٹینڈرڈ'' پر آنچ نہ آئے، اَلعیاذ باللہ۔ بے پردگی، تصویر کشی وغیرہ : علاوہ اَزیں تقریباتِ نکاح میں جو منکرات خاص طور پر دیکھنے میں آتے ہیں اُن میں بے پردگی اور بے حجابی بھی ہے۔ اَوّل تو اَب ہمارے یہاں شرعی پردہ ہی کہاں رہا ہے اور جن خاندانوں میں خوش قسمتی سے اِس کا اہتمام اَب بھی باقی ہے اُن میں بھی تقریبات کے موقع پر کھل کر بے پردگی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور اِسے عیب نہیں سمجھا جاتا۔ نوجوان لڑکے کھانے وغیرہ کے اِنتظام کے بہانے بے دھڑک شادی کے گھر میں آتے جاتے ہیں، نوجوان لڑکیاں بن ٹھن کر بے پردہ تقریبات میں شریک ہوتی ہیں اور بعض جگہ تو یہ غضب ہوتا ہے کہ عورتوں کو کھانا کھلانے والے'' مرد بیرے'' ہوتے ہیں، یہ بے حیائی ایک مومن کے لیے سوہانِ رُوح ہونی چاہیے مگر اَفسوس ہے کہ اچھے اچھے دیندار حضرات بھی اِس برائی کو برائی نہیں سمجھتے۔ دُوسرے یہ کہ اِن مواقع پر دُولہا کو سلامی کے لیے گھر میں بلایا جاتا ہے اور عورتیں جن میں ٩٥فیصد دُولہا کے لیے غیرمحرم ہوتی ہیں اُسے گھیر لیتی ہیںاُس کے ساتھ مذاق اور دِل لگی کرتی ہیں اور اِس کھلی ہوئی بے غیرتی کو لازمی اور ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ تف ہے اِس بے حیائی پر ! اور ماتم ہے شرم وناموس کی اِس ذلت ورُسوائی پر ! تیسری اور سب سے بڑی معصیت جو اَب رواج پاگئی ہے وہ فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کی لعنت ہے جس نے شرم وحیا کے دامن کو بالکل تار تار کر کے رکھ دیا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے دُولہا دُولہن کے ساتھ گروپ فوٹو کھینچے جاتے ہیں پھر اُنہیں دوستوں کو تحفہ میں دیا جاتا ہے۔ ویڈیو کے ذریعہ اُن کی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور بے شرمی کے ساتھ اُن کی نمائش ہوتی ہے اَلعیاذ باللہ۔ فوٹو گرافی کا