ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
کو اِختیا ر نہیں اَلبتہ اُس کو قتل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے اور اگر حالات کی نزاکت کی وجہ سے قتل مناسب نہ ہو تو کوئی دُوسری سزا بھی دی جا سکتی ہے جس سے وہ فتنہ اور فرقہ واریت ختم ہو جائے۔ (٢) اگر جدید تحقیق نہیں کر سکتے تو جدید مسائل کیسے حل ہوں گے ؟ جواب : جدید تحقیق اُن مسائل میں روانہیں جن کی تحقیق پہلے ہوچکی ہے اور وہ عملی تواتر وتوارث سے چلی آرہی ہے لیکن جدید پیش آمدہ مسائل پر تحقیق ناگزیر ہے ،اِس سے فتنہ اور فرقہ واریت پیدا نہیں ہوتی نہ ہونی چاہیے لیکن اِس تحقیق کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں : نمبر ا : علومِ آلیہ اور علومِ عالیہ میں پوری مہارت یعنی علمِ صرف ،علمِ نحو ،علمِ بیان ،علمِ بدیع ، عربی اَدب ،علمِ تفسیر اور اُصو لِ تفسیر ،علم الفقہ اور اُصولِ فقہ، علم الحدیث واُصولِ حدیث ،علم الکلام ، علم اَسماء ُ الرجال ،علم التاریخ یعنی اَحوالِ ماضی اور موجودہ اَحوال ، زمانہ کا علم اور اِن علوم میں بھی صرف اَبجد شناسی کافی نہیں بلکہ پوری مہارت ہو،اگر پوری مہارت نہ ہو تو اُس علم کے ضروری مسائل کا علم ہو۔ نمبر٢ : جدید مسائل کا حل اِنفرادی طورپرنہ ہو بلکہ شورائی طریقہ پر ہو جیسا کہ اِمام اعظم اَبوحنیفہ نے اپنے چالیس جید شاگردوں کی مجلس شورٰی قائم کرکے اُس میں اَحکامِ شرعیہ کے علم کو مدون کیا۔ نمبر٣ : مجلس ِشورٰی کا ہر رُکن علومِ آ لیہ اور علومِ عالیہ کا ماہر ہو ، متقی ،پرہیز گار، علم وعمل کا جامع ہو اور خالص اِسلامی ذہن رکھتاہو، مغربی تہذیب وتمدن کا دِلدادہ اور مغربی یورپین اَساتذہ کا تربیت یافتہ نہ ہو ۔ نمبر ٤ : جدید مسائل کو جب کتاب و سنت کی روشنی میں حل کرنا ہے تو فیصلہ کرنے کی اَتھارٹی علماء ِشورٰی کے پاس ہوگی اَلبتہ جہاں تحقیق مسائل میں وہ جدید معلومات کی ضرورت محسوس کریںوہاں اِن کو جدید علوم وفنون کے وہ ماہرین معلومات فراہم کرنے میں تعا ون کریں جن کو بطور ِرُکن ِشورٰی نامزد کیا جائے۔ نمبر ٥ : جدید مسائل کوحل کرنے میں اُن اُصولوں کو پیش ِنظر رکھا جائے جو مجتہدین اِسلام نے طے کر دیے ہیں،جدید مسائل کا حل اُن اُصولوں کے ماتحت رہ کر ہو، اُن سے بالا تر ہو کر نہیںہے۔