ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
ہوگا،وضات اور تشریح وہی معتبر ہو گی جو وکیل اورجج کریں گے ۔اِسی طرح قانون کی وضاحت میں ایک وکیل دُوسرے وکیل سے ،ایک جج دُوسرے جج سے اِختلاف کر سکتا ہے لیکن ہر ایک کو وکیل یا جج سے اِختلاف کرنے کا حق نہیں حتی کہ بعض مرتبہ عدالت میں وکیل اور جج کے درمیان اِختلاف ہوجاتا ہے آپس میں بحث بھی ہو جاتی ہے اُس کو توہین ِعدالت تصور نہیں کیا جاتا ،نہ وکیل پر توہین ِعدالت کا کیس ہوتا ہے لیکن اگر کوئی دُوسرا شخص عدالت میں جج کے ساتھ کسی قانونی نکتہ پر اِختلاف و بحث کرے تو توہین ِعدالت کا کیس ہو جائے گا ۔اور ہر فن میں ماہرِفن کی رائے ہی معتبر ہوتی ہے اور اُس فن کے ماہرین ہی آپس میں کسی فنی مسئلہ میں اِختلاف کا حق رکھتے ہیں ،دُوسروں کی نہ رائے معتبر ہے نہ اُن کو اِختلاف کرنے کا حق ،لیکن اِسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے یا اِسلامی حکومت کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے کتاب و سنت اور قانونِ شریعت کے بارے میں ہر ایک کو رائے زنی کرنے کا اور مجتہدین اِسلام کی متواترو مسلَّمہ تحقیقات سے اِختلاف کرنے کا بلکہ اُن کی تحقیقات و تشریحات کو رَد کرکے اپنی جاہلانہ تحقیقات و تشریحات کرنے کا حق ہے، اِس لیے جو آدمی قانونِ اِسلام میں مہارت نہیں رکھتا وہ قرآن و حدیث کا موعظت والا حصہ پڑھ کر نصیحت حاصل کرے اُس سے نصیحت پکڑنا بہت آسان ہے ۔ (٤) کیا اَب کتاب وسنت کے حصہ قانون کا مطالعہ نہ کیا جائے ؟ جواب : مطالعہ کیا جائے لیکن اُس کا طریقہ کا راور ترتیب یہ ہے کہ پہلے باقاعدہ کسی ماہر ودیانتدار اُستاذ کے پاس علومِ آلیہ یعنی صرف و نحو وغیرہ پڑھ کر ماہرین ِشریعت یعنی مجتہدین اِسلام کی تحقیقات و تشریحات پر مشتمل عربی ،فارسی، اُردو کتب کو باقاعدہ کسی ماہراُستاذ کے پاس پڑھاجائے یا اُن کی نگرانی میں مطالعہ کیا جائے پھر اُن تحقیقات و تشریحات کو رَموز و شرح کے طور پرساتھ لے کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے اور یہ کوئی عجوبہ نہیں ۔کتنی ہی اہم کتابیں ہیں جن کی شروح لکھی گئی ہیں ہم اُس کتاب کو اُن شروحات کی مدد سے سمجھتے ہیں۔ آج کل ماہر اَساتذہ کے لکھے ہوئے رموز کی مدد سے سکول کی نصابی کتابیں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ،اِقبالیات کے سمجھنے کے لیے اُن کی شروحات کو سامنے رکھا جاتا ہے جبکہ یہ سب اِنسانی کتب ہیں اور قرآن تو وحی اِلٰہی ہے اِس کو سمجھنے کے لیے مجتہدین اِسلام نے