ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
حرف آغاز نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّابَعْدُ ! پاکستان میں علمائے کرام پر قاتلانہ حملوں اور اُن کے قتل ِناحق کا جو سلسلہ گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہے اِس کے روک تھام کے لیے کسی بھی حکومت نے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں یہی وجہ ہے کہ اِس جارحیت میں روز بر وز اِضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں گزشتہ ماہ کی ٢٣ تاریخ کو اَمیرِجمعیت علمائِ اِسلام حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے کوئٹہ میں مفتی محمود کانفرنس سے خطاب کیا اِس عظیم الشان جلسۂ عام کے اِختتام کے بعد مولانا فضل الرحمن صاحب اپنی بکتر بند گاڑی میں محافظ دستہ کے ہمراہ جلسہ گاہ سے روانہ ہوئے ہی تھے کہ اُن کی گاڑی کے بالکل قریب اِنتہائی خطرناک بارُود پھٹا ،اِس دھماکہ سے مولانا کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور بازارمیں بھی ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ حملہ اِنتہائی خطرناک اور کاری تھا اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو بہت کچھ ہوجاتا ،اللہ کی قدرت کہ مولانا اور اُن کے تمام رفقاء معجزانہ طور پر بالکل محفوظ رہے،فالحمد للہ ۔ آج سے تین برس قبل بھی تیس اور اِکتیس مارچ ٢٠١١ء کو بالترتیب صوابی اور چار سدہ کے جلسوں اور جلوسوں کے موقع پر اِسی نوعیت کے خودکُش بمباروں اور بندوق برداروں کے اِنتہائی منصوبہ بند حملوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے مولانا کو بال بال بچالیا تھا اور اُن کے بدخواہوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حالات سے اَندازہ ہوتا ہے کہ بڑی اور بیرونی قوتیں اِس حملہ کی منصوبہ ساز ہیں۔