ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
اَمیر المومنین ! آپ کے ایک عامل نے مجھے سو(١٠٠) کوڑے مارے ہیں۔ حضرت عمر نے اُس آدمی کو حکم دیا کہ وہ بھی اُن کے سامنے عامل کوسو( ١٠٠) کوڑے مارے، یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص اُٹھے اور بولے : اَمیر المومنین ! اگر ایسا کیا گیا تویہ روایت بن جائے گی۔ حضرت عمر نے جواب دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اِس شخص کو اُس عامل سے قصاص نہ دِلواؤں جبکہ رسول اللہ ۖ کو خود اپنے سے قصاص لیتے دیکھا، حضرت عمرو بن العاص نے بیچ بچاؤ کر کے مستغیث کو ایک ایک تازیانے کے بجائے دو دو اَشرفیاں دے کر راضی کیا۔ (کتاب الخراج باب ١٢ فصل ١)۔'' ١ فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں عدل و اِنصاف کی جو روِش اِختیار کی تھی وہ بعد میں بھی چلتی رہی، ایسے واقعات آپ کے دور کے بعد بھی ملتے ہیں چنانچہ ذیل میں ایک واقعہ قاضی شریح کی عدالت کا پیش کیا جاتا ہے : (٥) حضرت علی قاضی شریح کی عدالت میں : حضرت مولانا سیّد اَبو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ''حاکم، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ معرکۂ جمل کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زِرہ ضائع (گم) ہوگئی، ایک شخص کو مِلی اُس نے بیچ ڈالی، کسی نے ایک یہودی کے پاس وہ زِرہ دیکھ کر پہچان لیا، اُس کا مقدمہ شریح کے محکمۂ قضاء میں پہنچا، علی کی طرف سے شہادت حسن اور اُن کے غلام قنبر نے دی۔ قاضی شریح نے کہا حسن کے بجائے کوئی اور گواہ لائیے ۔حضرت علی نے فرمایا کیا آپ کو حسن کی شہادت قبول نہیں ہے ؟ کہا نہیں ،کیونکہ میں نے آپ کی ہدایت یاد رکھی ہے کہ باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت قبول نہیں کی جاتی، پھر یہودی سے کہا کہ یہ زِرہ تم لے لو، ١ اِسلام میں مذہبی رواداری ص ١٠٧