ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
نہیں ؟ عذر اُس کا نامعقول تھا معقول نہیں تھا ،اُس زمانے کے دَستور کے مطابق اور اُن کی عادتوں کے مطابق اُس کو تمیز ہونی چاہیے تھی منہ کو جب ذائقہ اُس کا لگا جب زبان سے وہ لگی ہے تو اُسے فورًا اَنداز ہو جانا چاہیے تھا کہ یہ میں نہیں پی سکتا بغیر پانی ملائے ہوئے یا بس ایک گھونٹ پیوں دو گھونٹ پیوںتاکہ میرا حلق جو خشک ہوا ہوا ہے وہ ٹھیک ہوجائے نہ یہ کہ وہ گلاس بھر کے پی جائے یہ اُس کی غلط تھی حرکت اَصل میں۔ حضرت علی کے مہمان کا قصہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ دعوت کی لوگوں کی، آئے لوگ اُنہوں نے نبیذ پلائی کھانے کے بعد ،ایک کو اُن میں سے نشہ ہو گیا ،بس اُنہوں نے حد لگادی وہ کہنے لگے بار بار کہتے تھے کہ آپ ہمیں بلاتے ہیں دعوت کرتے ہیں کھانا کھلاتے ہیں پھر نبیذ پلاتے ہیں پھر حد بھی لگاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا حد تو تمہارے نشہ (کی وجہ ) سے ہے ،تمہیں اَنداز ہونا چاہیے کہ میں کس قسم کی نبیذ کا عادی ہوں اُس سے زیادہ تیز ہے تو وہ نہ پیو یا پانی مِلا کر پیو۔ رسول اللہ ۖ فتح مکہ مکرمہ کے موقع پر جب اُدھر طائف وغیرہ کی طرف تشریف لے گئے تو آپ کی خدمت میں ایک عمدہ نبیذ پیش کی گئی وہ عمدہ تھی لیکن اُس میں جھاگ اور ایک طرح کی جو گیس ہوتی ہے وہ پیدا ہوگئی تھی تو رسول اللہ ۖ نے اُسے کھولا تو ایک دم وہ گیس جو چڑھی ہے تو اُس سے آپ نے چہرۂ مبارک پیچھے ہٹا لیا جیسے منہ بے اِختیار بنتا ہے ویسے منہ بنا یا پیچھے ہٹا لیا چہرہ ٔ مبارک اور پھر فرمایا اِس میں پانی ملاؤ تو پانی ملایا پھر آپ نے وہ اِستعمال فرمائی، اِس طرف کے لوگ عادی تھے نبیذ ِشدید کے، اُنہیں نشہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یزید اور شراب ،شراب کہاں سے آئی ؟ : اَب یہ یزید کا شراب پینا آتا ہے اِسے بڑا بعید سمجھتے ہیں یہ بات نہیں ہے بعید وعید نہیں ہے وہ نبیذ اُن کا جزوِحیات تھا اُس میں اگر آدمی کی نیت خراب ہوجائے تو اُسی کو تیزذرا ایک کر کے پی لے