ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
بات یہ ہے کہ دین اور علم دین کی عظمت و اہمیت ہی ختم ہو چکی ہے اور خوفِ خدا دِل سے نکل چکا ہے اِس لیے اِس کی تحقیق پر جاہل سے جاہل آدمی بھی دلیر ہے ۔ (٧) اگر خود تحقیق نہ کریں تو ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا ذہنی اِرتقا ء رُک جائے گا۔ جواب : اِس کا اَوّلاً جواب یہ ہے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ماہرین کا ملین کے تحقیق شدہ مسائل کی ناقصین کو دوبارہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ڈاکٹر کے نسخہ کی مریض کو چیک کرنے کی یا اپنے طور پر تحقیق کرکے نسخہ تجویز کرنے کی اِجازت نہیں۔رہے جدید حالات کے تحت پیش آنے والے جدید مسائل ،وہ بہر کیف حل کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے ذہنی بالیدگی ،ذہنی اِرتقاء اور علمی ترقی جاری رہے گی۔ ثانیًا جواب یہ ہے کہ حالاتِ زمانہ کے بدلنے سے طرزِ اِستدلال بھی بدلتا ہے اِس لیے یہ ضرورت ہر زمانہ میں باقی رہتی ہے کہ حالاتِ زمانہ کے مطابق اُن ہی قدیم تحقیقات کو جدید دلائل کے ساتھ مدلل کرکے پیش کیا جائے نیز ماہرین ِشریعت کی تحقیق کے مطابق اَحکام ِشرعیہ کی حکمتیں اور اَسرار جدید علوم و فنون کی روشنی میں تلاش کی جائیں مثال کے طور پر بول و براز کی وجہ سے وضو کے لازم اور منی کی وجہ سے غسل لازم کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ پھر وضو ٹوٹنے میں حدث لاحق ہوتی ہے پورے بدن میں مگر حکم ہے چہرے،بازواور پائوں دھونے کا اور سر پہ مسح کرنے کا ۔وضو میں اِن چار اَعضا ء کی تخصیص کیوں ہے ؟ پھر اِن چار اعضاء کے دھونے سے پورا بدن پاک ہو جاتا ہے اِس میںکیا حکمت ہے ؟ جدید محققین کی تحقیق کے لیے یہ میدانِ تحقیق بڑا وسیع ہے وہ اِس تحقیق میں اپنے علم وفن کی توانائیاں خرچ کریں اور مزید ترقی کریں۔ ثالثاً عرض یہ ہے کہ'' اِجتہاد ''اور'' اِستشہاد ''میں بڑا فرق ہے۔ مجتہد کا غیر منصوص مسئلہ کو کتاب وسنت کی روشنی میں اَز خود اِجتہاد و فقاہت کے ذریعہ حل کرنا اِجتہا دہے وہ چونکہ اِس مسئلہ کے ساتھ اپنے تفصیلی دلائل تحریر نہیں کرتا بطور ِخلاصہ صرف شرعی حکم بیان کر دیتا ہے سو اُس نے جو حکمِ شرعی بیان کیا ہے اُس کو بلا چون وچرا اُس مجتہد کی مجتہد انہ مہارت کی شہر ت کی بنیاد پربلا دلیل تسلیم کرنا پھر