Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014

اكستان

40 - 65
بات یہ ہے کہ دین اور علم دین کی عظمت و اہمیت ہی ختم ہو چکی ہے اور خوفِ خدا دِل سے نکل چکا ہے اِس لیے اِس کی تحقیق پر جاہل سے جاہل آدمی بھی دلیر ہے ۔
(٧)   اگر خود تحقیق نہ کریں تو ذہنی جمود پیدا ہو جائے گا ذہنی اِرتقا ء رُک جائے گا۔ 
جواب  :  اِس کا اَوّلاً جواب یہ ہے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ماہرین کا ملین کے تحقیق شدہ مسائل کی ناقصین کو دوبارہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ڈاکٹر کے نسخہ کی مریض کو چیک کرنے  کی یا اپنے طور پر تحقیق کرکے نسخہ تجویز کرنے کی اِجازت نہیں۔رہے جدید حالات کے تحت پیش آنے والے جدید مسائل ،وہ بہر کیف حل کرنے پڑیں گے جن کی وجہ سے ذہنی بالیدگی ،ذہنی اِرتقاء اور   علمی ترقی جاری رہے گی۔
 ثانیًا جواب یہ ہے کہ حالاتِ زمانہ کے بدلنے سے طرزِ اِستدلال بھی بدلتا ہے اِس لیے یہ ضرورت ہر زمانہ میں باقی رہتی ہے کہ حالاتِ زمانہ کے مطابق اُن ہی قدیم تحقیقات کو جدید دلائل کے ساتھ مدلل کرکے پیش کیا جائے نیز ماہرین ِشریعت کی تحقیق کے مطابق اَحکام ِشرعیہ کی حکمتیں اور اَسرار جدید علوم و فنون کی روشنی میں تلاش کی جائیں مثال کے طور پر بول و براز کی وجہ سے وضو کے لازم اور  منی کی وجہ سے غسل لازم کرنے میں کیا حکمت ہے  ؟  پھر وضو ٹوٹنے میں حدث لاحق ہوتی ہے پورے بدن میں مگر حکم ہے چہرے،بازواور پائوں دھونے کا اور سر پہ مسح کرنے کا ۔وضو میں اِن چار اَعضا ء کی تخصیص کیوں ہے  ؟  پھر اِن چار اعضاء کے دھونے سے پورا بدن پاک ہو جاتا ہے اِس میںکیا حکمت ہے  ؟  جدید محققین کی تحقیق کے لیے یہ میدانِ تحقیق بڑا وسیع ہے وہ اِس تحقیق میں اپنے علم وفن کی توانائیاں خرچ کریں اور مزید ترقی کریں۔ 
ثالثاً عرض یہ ہے کہ'' اِجتہاد ''اور'' اِستشہاد ''میں بڑا فرق ہے۔ مجتہد کا غیر منصوص مسئلہ کو  کتاب وسنت کی روشنی میں اَز خود اِجتہاد و فقاہت کے ذریعہ حل کرنا اِجتہا دہے وہ چونکہ اِس مسئلہ کے ساتھ اپنے تفصیلی دلائل تحریر نہیں کرتا بطور ِخلاصہ صرف شرعی حکم بیان کر دیتا ہے سو اُس نے جو حکمِ شرعی بیان کیا ہے اُس کو بلا چون وچرا اُس مجتہد کی مجتہد انہ مہارت کی شہر ت کی بنیاد پربلا دلیل تسلیم کرنا پھر
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 اس شمارے میں 3 1
3 حرف آغاز 4 1
4 درسِ حدیث 6 1
5 شراب کی خرابی کی عقلی دلیل : 7 4
6 شراب کی مجلس : 7 4
7 اِسلام سے پہلے جانور وں پر سختی : 7 4
8 فوری اور مکمل اِطاعت : 8 4
9 عرب کا عام رواجی مشروب : 8 4
10 حضرت عمر نے نشہ آنے پر حد لگائی : 9 4
11 حضرت علی کے مہمان کا قصہ : 10 4
12 یزید اور شراب ،شراب کہاں سے آئی ؟ : 10 4
13 ایک عربی اور مرچ : 11 4
14 اِمام اَبوحنیفہ کا فتوی : 12 4
15 ''کوفہ'' علمی مرکز : 12 4
16 اَلکحل کی حیثیت : 13 4
17 اِسلام کیا ہے ؟ 15 1
18 آٹھواں سبق : معاشرت کے اَحکام و آداب اور باہمی حقوق 15 17
19 ماں باپ کے حقوق اور اُن کا اَدب : 15 17
20 اَولاد کے حقوق : 17 17
21 میاں بیوی کے حقوق : 18 17
22 عام قرابت داروں کے حقوق : 20 17
23 قصص القرآن للاطفال 21 1
24 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصّے 21 23
25 (سامری اور بچھڑے کا قصہ ) 21 23
26 سیرت خُلفا ئے راشد ین 25 1
27 اَمیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفّان ذوالنّورین 25 26
28 حضرت عثمان کے فضائل میں چند آیات و اَحادیث : 25 26
29 اَحادیث : 25 26
30 فرقہ واریت کیا ہے ، کیوںہے اور سدباب کیا ہے ؟ 32 1
31 اِزالہ شبہات : 32 30
32 (٢) اگر جدید تحقیق نہیں کر سکتے تو جدید مسائل کیسے حل ہوں گے ؟ 33 30
33 (٣) جناب ! اللہ نے قرآن کو آسان کیا 34 30
34 (٤) کیا اَب کتاب وسنت کے حصہ قانون کا مطالعہ نہ کیا جائے ؟ 35 30
35 (٦) جب کتاب وسنت کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں جیساکہ ہمارے اُردو میں 37 30
36 (٧) اگر خود تحقیق نہ کریں 40 30
37 (٨) مجتہد غیر معصوم تھے اُن سے غلطی ہوسکتی ہے 41 30
38 پھر مسائلِ قطعیہ کی دو قسمیںہیں : 42 30
39 اِسلامی معاشرت 47 1
40 \نکاح کرتے وقت کن باتوں کا خیال رہے ؟ 47 39
41 اِسرافِ بیجا : 47 39
42 حضرت سلمان فارسی کا واقعہ : 48 39
43 بُفے سسٹم : 49 39
44 بے پردگی، تصویر کشی وغیرہ : 50 39
45 اربعین حدیثا فی فضل سورة الاخلاص 52 1
46 فضائل سورۂ اِخلاص 52 45
47 مرض الوفات میں پڑھنے کی فضیلت : 52 45
48 کثرت سے پڑھنے والے کے جنازہ میں فرشتوں کی شرکت : 53 45
49 اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب ہے : 53 45
50 سورۂ اِخلاص کی محبت جنت میں داخلہ کا سبب ہے : 54 45
51 سورہ اِخلاص و سورہ فاتحہ سے شفاء حاصل کرو : 54 45
52 اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتی ہے : 55 45
53 سورۂ اِخلاص کا دم : 55 45
54 سورہ ٔاخلاص کی مستقل تلاوت : 56 45
55 حاصلِ مطالعہ 57 1
56 حضرت عمر کا اَندازِ جہانبانی : 57 55
57 خواجہ عزیز الحسن مجذوب تحریر فرماتے ہیں : 57 55
58 عدل و اِنصاف میں مساوات : 57 55
59 (١) حضرت عمر حضرت زید کی عدالت میں : 58 55
60 (٢) حضرت علی حضرت عمر کی عدالت میں : 58 55
61 (٣) محمد بن عمرو حضرت عمر کی عدالت میں : 59 55
62 (٤) فاروقِ اَعظم کے بے لاگ عدل کا ثمرہ : 61 55
63 (٥) حضرت علی قاضی شریح کی عدالت میں : 62 55
64 اَخبار الجامعہ 64 1
Flag Counter