ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
اَحادیث رسو ل اللہ اور اَصحابِ رسول اللہ کے آثارو اَقوا ل کو سامنے رکھ کر خدا داد فقاہت اور فقہی مہارت کے ذریعے قرآن کو سمجھا اور قوانین ِشریعت کو پوری تشریح کے ساتھ مدون کیا۔ ہمارے اَندر چونکہ اِتنی فقاہت اور فقہی مہارت نہیں ،نہ اَحادیث و اَقوال پر اِتنی وسیع نظرہے ،نہ اِتنا حافظہ،نہ تقوٰی وطہارت، نہ خوف و خشیت ،نہ حلال روزی ،نہ اِخلاص اور یکسوئی ،ہمارے دل و دماغ تو خاندان اور معاشی مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں اور دُنیا سازی میں ہمہ تن مصروف ہیں اِس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کی تشریحات و تحقیقات کو بطورِشرح کے سامنے رکھ کر قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں جبکہ( صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ) اور( سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ ) میں اِسی طریقہ کار کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ (٥) صحابہ کرام کے زمانہ میں نہ یہ علوم تھے اور نہ یہ شروح لیکن قرآن و حدیث کو وہ سمجھتے تھے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کے سمجھنے کے لیے یہ علوم اور شروح ضروری نہیں ۔ جو ات : پہلی بات یہ ہے کہ عربی صحابۂ کرام کی مادری زبان تھی اور مادری زبان اور اُس کے اِشارات و کنایات اور باریکیاں سمجھنے کے لیے گرائمر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔دیکھئے جناب اِس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے اُس پر زیر زبر پیش ،جزم ، شد ،مد ،رموز وقف ،منزل، رکوع، آیات ،پارے وغیرہ کے نمبرات لگے ہوئے نہ تھے لیکن اِس کے باوجود تلاوت کرتے اُن کو کبھی دِقت پیش نہ آئی لیکن بعد میں غیر زبان والوں کو پڑھنے میں مشکلات پیش آئیں تو اُن کی آسانی کے لیے یہ علوم اِیجاد ہوئے مگر سارے غیر زبان والے عجمی لوگ اِن علوم کو نہیں پڑھ سکتے تھے، ایسے بے علم لوگوں کی مشکل پھر بھی حل نہ ہوئی تو قرآن پراِعراب وغیرہ لگا دیے گئے،اَب اگر کوئی یہ کہے کہ جب صحابہ کرام قرآن کو بغیر اِعراب ،بغیر وقف وغیرہ کے پڑھتے تھے تو ہم بھی پڑھ سکتے ہیں لہٰذاِعراب لگانے کی ضرورت نہیں ۔تو اُن کو یہی کہا جائے گا کہ صحابہ کرام اہلِ زبان تھے عربی اُن کی مادری زبان تھی وہ بغیر صرف و نحو وغیرہ علوم کے اور بغیر اِعراب لگانے کے پڑھ لیتے تھے لیکن ہم اِن علوم کی طرف یا کم اَز کم اِعراب وغیرہ علامات کے محتاج ہیں ہم اِس کے بغیر نہیں پڑھ سکتے ۔اِسی طرح قرآنِ پاک کے سمجھنے کا مسئلہ ہے وہ اہلِ لسان ہونے کی وجہ سے قرآن کو بقدر ِضرورت سمجھ لیتے تھے لیکن ہم اِن علوم کے بغیر