ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
حرمت ،زِنا کی حرمت ،چوری ڈکیتی کی حرمت ،شراب کی حرمت ،مسواک کا سنت ہونا ،داڑھی کاسنت ہونا ،قربانی ،اَذان و تکبیر وغیرہ (٢) مسائلِ ظنیہ یعنی وہ مسائل جن کا ثبوت یقینی و قطعی نہیں بلکہ وہ غلبۂ ظن کے درجہ میں ثابت ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت ِتکوین مستقل صفت ہے یا صفت ِقدرت میں داخل ہے۔صفاتِ اِلٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات ، عذابِ قبر کی کیفیت ،حیاة فی ا لقبر کی کیفیت ،اَنبیاء علیہم السلام اَفضل ہیں یا ملائکہ ،سرورِ کائنات ۖکے بعد کون سے نبی اَفضل الانبیا ہیں ، اِیمان کم زیادہ ہوتا ہے یا نہیں ، وضو، غسل ،نماز، روزہ ،حج وغیرہ میں سے ہر ایک میں سے ہر ایک میں فرائض ،واجبات ، سنن ، مستحبات کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں یا وہ مسائل غیر منصوصہ ہیں یعنی کتاب و سنت میں اِن کا ذکر نہیں ہوا جیسے ہر زمانہ کے پیش آمدہ اکثر جدید مسائل ،اِن مسائلِ ظنیہ کو'' مسائلِ اِجتہاد یہ ''بھی کہا جاتا ہے۔ دَراصل مسائل کے اِن دو قسموںکی بنیاد دلائل کی دو قسموں پر ہے ، دلائل دو قسم کے ہیں : (١) دلائلِ قطعیہ یعنی وہ دلائل جو نبو ت کے لحاظ سے قطعی ہیں اور مفہوم کے اِعتبار سے بالکل واضح ہیں جیسے لااِلہ اِلا ہو الحی القیوم ،محمد رسول اللہ ،واقیمو االصلوة و اٰتوالزکوة، وغیرہ۔ (٢) وہ دلائل ظنیہ یعنی وہ جن کا ثبوت غلبۂ ظن کے درجہ میں ہے یا اُن کا مفہوم و معنی غیرواضح ہے مثلاً خبر واحد، اِس کا ثبوت ظنی ہوتا ہے پھر اگر اِن اَخبارِ آ حاد میں تعارض ہو جیسے رفع ید ین اور ترک ِقراء ة خلف الامام اور ترک القراء ة خلف الامام کی متعارض اَحادیث یا مفہوم کے اِعتبار سے اِس میں مختلف اِحتمالا ت ہوں جیسے( وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْئٍ) میں دو اِحتمال ہیں کہ قُرُوْء سے مراد طہر ہو یا حیض پس وہ مسائل جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہیں وہ قطعی ہیں اور جو دلائلِ ظنیہ سے ثابت ہیں وہ ظنی ہیں۔ پھر مسائلِ قطعیہ کی دو قسمیںہیں : (١) وہ مسائل جن کا ثبوت اِتنا قطعی اور واضح ہے کہ اُن کو ہر مسلمان خواہ عالم ہو یا غیر عالم جانتا ہے ،اُن کو ''ضرور یاتِ دین'' کہا جاتاہے مثلاً توحید ،رسالت، قیامت، صداقت ِقرآن، جنت