Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014

اكستان

42 - 65
حرمت ،زِنا کی حرمت ،چوری ڈکیتی کی حرمت ،شراب کی حرمت ،مسواک کا سنت ہونا ،داڑھی کاسنت ہونا ،قربانی ،اَذان و تکبیر وغیرہ
 (٢)  مسائلِ ظنیہ یعنی وہ مسائل جن کا ثبوت یقینی و قطعی نہیں بلکہ وہ غلبۂ ظن کے درجہ میں ثابت ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت ِتکوین مستقل صفت ہے یا صفت ِقدرت میں داخل ہے۔صفاتِ اِلٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات ، عذابِ قبر کی کیفیت ،حیاة فی ا لقبر کی کیفیت ،اَنبیاء علیہم السلام اَفضل ہیں یا ملائکہ ،سرورِ کائنات  ۖکے بعد کون سے نبی اَفضل الانبیا ہیں ، اِیمان کم زیادہ ہوتا ہے یا نہیں ، وضو، غسل ،نماز، روزہ ،حج وغیرہ میں سے ہر ایک میں سے ہر ایک میں فرائض ،واجبات ، سنن ، مستحبات کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں یا وہ مسائل غیر منصوصہ ہیں یعنی کتاب و سنت میں اِن کا ذکر نہیں ہوا جیسے ہر زمانہ کے پیش آمدہ اکثر جدید مسائل ،اِن مسائلِ ظنیہ کو'' مسائلِ اِجتہاد یہ ''بھی کہا جاتا ہے۔
 دَراصل مسائل کے اِن دو قسموںکی بنیاد دلائل کی دو قسموں پر ہے ، دلائل دو قسم کے ہیں  :  
(١)  دلائلِ قطعیہ یعنی وہ دلائل جو نبو ت کے لحاظ سے قطعی ہیں اور مفہوم کے اِعتبار سے بالکل واضح ہیں جیسے لااِلہ اِلا ہو الحی القیوم ،محمد رسول اللہ ،واقیمو االصلوة و اٰتوالزکوة، وغیرہ۔ 
(٢)  وہ دلائل ظنیہ یعنی وہ جن کا ثبوت غلبۂ ظن کے درجہ میں ہے یا اُن کا مفہوم و معنی غیرواضح ہے مثلاً خبر واحد، اِس کا ثبوت ظنی ہوتا ہے پھر اگر اِن اَخبارِ آ حاد میں تعارض ہو جیسے رفع ید ین اور ترک ِقراء ة خلف الامام اور ترک القراء ة خلف الامام کی متعارض اَحادیث یا مفہوم کے اِعتبار سے اِس میں مختلف اِحتمالا ت ہوں جیسے( وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْئٍ) میں دو اِحتمال ہیں کہ  قُرُوْء سے مراد طہر ہو یا حیض پس وہ مسائل جو دلائلِ قطعیہ سے ثابت ہیں وہ قطعی ہیں اور جو دلائلِ ظنیہ سے ثابت ہیں وہ ظنی ہیں۔
پھر مسائلِ قطعیہ کی دو قسمیںہیں  :
(١)  وہ مسائل جن کا ثبوت اِتنا قطعی اور واضح ہے کہ اُن کو ہر مسلمان خواہ عالم ہو یا غیر عالم جانتا ہے ،اُن کو ''ضرور یاتِ دین'' کہا جاتاہے مثلاً توحید ،رسالت، قیامت، صداقت ِقرآن، جنت
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 اس شمارے میں 3 1
3 حرف آغاز 4 1
4 درسِ حدیث 6 1
5 شراب کی خرابی کی عقلی دلیل : 7 4
6 شراب کی مجلس : 7 4
7 اِسلام سے پہلے جانور وں پر سختی : 7 4
8 فوری اور مکمل اِطاعت : 8 4
9 عرب کا عام رواجی مشروب : 8 4
10 حضرت عمر نے نشہ آنے پر حد لگائی : 9 4
11 حضرت علی کے مہمان کا قصہ : 10 4
12 یزید اور شراب ،شراب کہاں سے آئی ؟ : 10 4
13 ایک عربی اور مرچ : 11 4
14 اِمام اَبوحنیفہ کا فتوی : 12 4
15 ''کوفہ'' علمی مرکز : 12 4
16 اَلکحل کی حیثیت : 13 4
17 اِسلام کیا ہے ؟ 15 1
18 آٹھواں سبق : معاشرت کے اَحکام و آداب اور باہمی حقوق 15 17
19 ماں باپ کے حقوق اور اُن کا اَدب : 15 17
20 اَولاد کے حقوق : 17 17
21 میاں بیوی کے حقوق : 18 17
22 عام قرابت داروں کے حقوق : 20 17
23 قصص القرآن للاطفال 21 1
24 پیارے بچوں کے لیے قرآن کے پیارے قصّے 21 23
25 (سامری اور بچھڑے کا قصہ ) 21 23
26 سیرت خُلفا ئے راشد ین 25 1
27 اَمیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفّان ذوالنّورین 25 26
28 حضرت عثمان کے فضائل میں چند آیات و اَحادیث : 25 26
29 اَحادیث : 25 26
30 فرقہ واریت کیا ہے ، کیوںہے اور سدباب کیا ہے ؟ 32 1
31 اِزالہ شبہات : 32 30
32 (٢) اگر جدید تحقیق نہیں کر سکتے تو جدید مسائل کیسے حل ہوں گے ؟ 33 30
33 (٣) جناب ! اللہ نے قرآن کو آسان کیا 34 30
34 (٤) کیا اَب کتاب وسنت کے حصہ قانون کا مطالعہ نہ کیا جائے ؟ 35 30
35 (٦) جب کتاب وسنت کے مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں جیساکہ ہمارے اُردو میں 37 30
36 (٧) اگر خود تحقیق نہ کریں 40 30
37 (٨) مجتہد غیر معصوم تھے اُن سے غلطی ہوسکتی ہے 41 30
38 پھر مسائلِ قطعیہ کی دو قسمیںہیں : 42 30
39 اِسلامی معاشرت 47 1
40 \نکاح کرتے وقت کن باتوں کا خیال رہے ؟ 47 39
41 اِسرافِ بیجا : 47 39
42 حضرت سلمان فارسی کا واقعہ : 48 39
43 بُفے سسٹم : 49 39
44 بے پردگی، تصویر کشی وغیرہ : 50 39
45 اربعین حدیثا فی فضل سورة الاخلاص 52 1
46 فضائل سورۂ اِخلاص 52 45
47 مرض الوفات میں پڑھنے کی فضیلت : 52 45
48 کثرت سے پڑھنے والے کے جنازہ میں فرشتوں کی شرکت : 53 45
49 اللہ تعالیٰ کی محبت کا سبب ہے : 53 45
50 سورۂ اِخلاص کی محبت جنت میں داخلہ کا سبب ہے : 54 45
51 سورہ اِخلاص و سورہ فاتحہ سے شفاء حاصل کرو : 54 45
52 اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتی ہے : 55 45
53 سورۂ اِخلاص کا دم : 55 45
54 سورہ ٔاخلاص کی مستقل تلاوت : 56 45
55 حاصلِ مطالعہ 57 1
56 حضرت عمر کا اَندازِ جہانبانی : 57 55
57 خواجہ عزیز الحسن مجذوب تحریر فرماتے ہیں : 57 55
58 عدل و اِنصاف میں مساوات : 57 55
59 (١) حضرت عمر حضرت زید کی عدالت میں : 58 55
60 (٢) حضرت علی حضرت عمر کی عدالت میں : 58 55
61 (٣) محمد بن عمرو حضرت عمر کی عدالت میں : 59 55
62 (٤) فاروقِ اَعظم کے بے لاگ عدل کا ثمرہ : 61 55
63 (٥) حضرت علی قاضی شریح کی عدالت میں : 62 55
64 اَخبار الجامعہ 64 1
Flag Counter