ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
نے کمرے میں بہت سے خدام، غلام، باندیوں کو دیکھا توآپ نے دریافت کیا کہ یہ کس کے ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ یہ بھی آپ کے اور آپ کی بیوی کے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میرے محبو ب آنحضرت ۖ نے مجھے اِس کی وصیت نہیںفرمائی،آپ نے تو یہ حکم دیا ہے کہ میں جس سے نکاح کروں اُس کے علاوہ کچھ نہ لوں، الخ۔ ( حیاة الصحابہ٢ /٦٦٨) اِسی طرح تاریخ میں آتا ہے کہ عبد اللہ بن قرط رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حِمص کے گورنر تھے، ایک مرتبہ رات میں گشت کر رہے تھے کہ اُس درمیان اُنہوں نے دیکھا کہ ایک شادی میں کچھ لوگ کفار کی مشابہت میں آگ جلارہے ہیں تو آپ نے لوگوں کو دُرّے سے مارا تاآنکہ سب مجمع منتشر ہوگیا۔ ( حیاة الصحابہ ٢ /٦٧٢) اَلغرض کسی بھی طرح کا اِسراف شریعت کی نظر میں اِنتہائی مبغوض ہے اور سلف ِصالحین کے طرزِ عمل کے خلاف ہے اِس سے ہر ممکن اِحتراز ضروری ہے نیز خاص کر نکاح میں یہ اِسراف قلت ِبرکت کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو اور ہمارے یہاںاِس کے بر خلاف اُس نکاح کی تقریب کو اچھا سمجھا جاتا ہے جس میں سب سے زیادہ فضول خرچی کی جائے۔ بُفے سسٹم : خاص طور پر دعوتوں میں کھانے کے معاملہ میں اِسراف بہت بڑھتا جارہا ہے، ایک تقریب کے بارے میں معلوم ہوا کہ صاحبِ خانہ نے ٨٠ طرح کے آئیٹم تیار کیے تھے۔ ایک جگہ شادی میں جانا ہوا تو پورا دستر خوان متعدد قسم کے آئیٹموں سے بھرا ہوا تھا اور نت نئی ڈِشوں کی آمد جاری تھی، ہم کھانے سے فارغ ہوگئے لیکن اَخیر تک ڈشیں آتی رہیں۔ اور اِس پر مستزاد یہ کہ کھانے کا مسنون طریقہ یعنی زمین پر فرش بچھا کر کھانے کا معمول تو اَب تقریبًا ختم ہوچکا، کیونکہ اَنگریزی فیشن والے لباس اِس طریقہ پر کھانے کے لیے بیٹھنے کے متحمل نہیں ہیں، میز کرسیوں پر کھانے کا سلسلہ چل رہا تھا مگر اَب تو