ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
''میں تم کو عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی خاص طور سے وصیت کرتا ہوں، تم میری اِس وصیت کو یاد رکھنا، دیکھو وہ تمہاری ماتحت ہیں اور تمہارے بس میں ہیں۔'' ایک اور حدیث میں حضور ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''تم میں اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں۔'' ایک دُوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''مسلمانوں میں زیادہ کامل اِیمان والے وہ ہیں جن کے اَخلاق اچھے ہوں اور جن کا برتائو اپنی گھروالیوں کے ساتھ لطف و محبت کا ہو۔'' عام قرابت داروں کے حقوق : ماں باپ، اَولاد اور میاں بیوی کے تعلقات کے علاوہ آدمی کا ایک خاص تعلق اپنے عام قرابت داروں سے بھی ہوتا ہے۔ اِسلام نے اِس تعلق اور رشتے کا بھی لحاظ کیا ہے اور اِس کے اِعتبار سے بھی کچھ باہمی حقوق مقرر کیے ہیں چنانچہ قرآنِ مجید میں جا بجا '' ذَوِی الْقُرْبٰی'' کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید فرمائی گئی ہے اور اِسلام میں اُس شخص کو بہت بڑا مجرم اور مہا پاپی بتلایا گیا ہے جو رِشتے داری اور قرابت کے حقوق کو پامال کرے۔ ایک حدیث میں ہے حضور ۖ نے فرمایا : ''قرابت کے حقوق کو پامال کرنے والا اور اپنے برتاؤ میں رِشتوں ناتوں کا لحاظ نہ رکھنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔'' پھر اِس سلسلہ میں رسول اللہ ۖ کی ایک خاص تعلیم اور تاکید یہ ہے کہ اگر بالفرض تمہارا کوئی قرابت دار تمہارا حق ِ قرابت اَدا نہ کرے تو اُس کی قرابت کا حق تم اِس صورت میں بھی اَدا کرتے رہو چنانچہ آنحضرت ۖ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ : ''تمہارا جو عزیز قریب تم سے بے تعلقی اور بے مروتی برتے اور قرابت کا حق اَدا نہ کرے تو تم اُس سے بے تعلقی مت برتو، اپنی طرف سے تم اُس کی قرابت کا حق اَدا کرتے رہو۔'' (جاری ہے) ض ض ض