ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
قرآنِ کریم اور صحاحِ ستہ کا ترجمہ ہوچکاہے بس اِن اُردو مترجم کتابوں کو پڑھ کر دین سمجھا جائے ،نہ اِن علوم کی ضرور ت نہ شروح کی اور نہ ہی کسی اُستاذ کی ضرورت ہے۔ جواب : چند اُمور ہمارے لیے غور طلب ہیں : ایک یہ کہ پتہ چلاکہ فہمِ دین کا یہ طریقہ غیرفطرتی طریقہ اُردو تراجم کے دور سے شروع ہوا ہے اِس سے پہلے نہ تھا۔پہلے طریقہ یہ تھا چونکہ مجتہدین کا دور گزر گیا تھا اَلبتہ اپنے زمانے میں اُنہوں نے جو علمِ شریعت کی تحقیق کی وہ مدونہ دینی کتب میں محفوظ تھی ،بتوفیق اِلٰہی کچھ خوش نصیب لوگ دینی علوم اور دینی کتب پڑھتے، اُن کو عرف میں علماء کہاجاتاہے او رکچھ اِتنا علم بھی حاصل نہ کرسکتے تھے جیسا کہ آج کل بھی لوگوں کی یہ دو قسمیں عیاں ہیں ہمیشہ غیر علماء علماء سے پوچھ کر اُن پر اِعتماد کرکے اُن کی رہنمائی میں عمل کرتے ،وہ علماء جو کچھ بتاتے وہ بھی براہ ِراست قرآن و حدیث سے اِستنباط نہ ہوتا تھا بلکہ مجتہدین ِسابقین کا تحقیقی و تشریحی اور اِجتہادی ورثہ جو کتب ِدینیہ میں محفوظ تھا اُس کو پڑھ کر اُس کے مطابق شرعی حکم بتاتے اور بے علم لوگ اُس پر عمل کرتے حتی کہ جب اُردوترجمے ہوئے اور وہ بھی صرف قرآنِ کریم اور صحاحِ ستہ کے تو یہ نظریہ بن گیا کہ اُستاذ کی ضرورت نہ دُوسری دینی کتب کی، بس قرآن کا اُردوترجمہ اور صحاحِ ستہ کے اُردو تراجم فہمِ دین کے لیے کافی ہیں ۔سو یہ طریقہ ایک جدید بدعت ہے پہلے نہ تھا۔ دُوسری بات یہ کہ اَصحاب ِرسول جو عربی دان تھے عربی اُن کی مادری زبان تھی وہ اِس اُردو خواں طبقہ سے قرآن وحدیث کو بہتر سمجھتے تھے اِس کے باوجود اُن میں براہِ راست قرآن و حدیث سے اَحکام اِسلام اَخذ کرنے اور سمجھنے والے مجتہدین ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ کرام میں سے ایک سو تیس تھے آج اُردو خواندہ طبقہ کاہر فرد کیسے مجتہد بن گیا ؟ وہ کتاب وسنت کے ساتھ اُستاذ کے محتاج تھے وہ اُستاذ و معلم اَصحابِ رسول کے لیے خود رسول اللہ ۖ، اَصاغر صحابہ کے لیے اَکابر صحابہ پھر تابعین کے لیے صحابہ کرام، تبع تابعین کے لیے تابعین ،اِسی طرح ہر دور میں اُستاذی شاگردی کے طریقہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہا اور تعلیم و تعلم کے ذریعہ علم محفوظ رہا ۔اگر اُستاذ کی ضرورت نہ ہوتی تو کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللہ نہ بھیجے جاتے ،صرف قرآن نازل کر دیا جاتا اور نہ ہی تعلیم و تعلم کی ضرورت تھی وہ خود