ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
سمجھ میں آتا ہے سننے میں آتا ہے کہ ہاں جی دُوسری طرح بھی اِس لفظ کو پڑھا جا سکتا ہے وہ قراء ٰ تِ سبعہ اور قراء ٰ تِ عشرہ ٔمتواترہ ہیں یعنی اُن پر ہمارا اِیمان ہے کہ وہ حق ہیں درست ہیںصحیح ہیں لیکن جس قراء ٰ ت کارواج ہو گیا وہ اِمامِ اعظم رحمة اللہ علیہ کی ہے اِسی کو رواج ہو گیا ساری دُنیا میں اور سات قاری جو ہیں اُن سات قاریوں میں سے تین فقط کوفے کے ہیںاور جو قراء ٰ تِ عشرہ پڑھاتے ہیں تو دس قاریوں کے نام آتے ہیں دس میں سے چار فقط کوفے کے ہیں۔ اور نحو کا مرکز علمائِ بصرہ اور علمائِ کوفہ اِن میں آپس میںنحوی بحثیں لغوی بحثیں چلتی رہتی ہیں تو ہر اِعتبار سے وہ بہت بڑی چیز بن گئی ۔ تو نبیذ جو ہے وہاں بھی وہاںبھی وہاں بھی(ہر جگہ تھی) اِمامِ اعظم رحمة اللہ علیہ نے اِس کے بارے میں فرمایا تمام اَحادیث کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جس کی حرمت پہ اِیمان رکھنا ضروری ہے وہ تو اَنگوری شراب ہے اور ہے بھی وہ ناپاک، قطرہ گر جائے تو ناپاک ہے جیسے پیشاب اور اُس کو پینا ایک گھونٹ بھی وہ بھی غلط ہے اُس پر بھی حد لگ سکتی ہے(اگرچہ نشہ نہ آئے) باقی جو ہیں اِن کی تاثیر ہے کہ نشہ پیدا کر دیتی ہیں بالذات یہ نشہ والی چیزوں میں شمار نہیں کی گئی تو نبیذ اگر کسی کو نشہ کرے تو حد اُس وقت لگائی جائے گی نبیذ پینے والے کو کہ جب وہ وہ گھونٹ پی لے جس سے نشہ ہوا تھا، اگر اُس حصے سے کم کم پی ہے تو نبیذ معاف ہے ،نبیذ کو نہیں کچھ بھی کہا جا سکتا اور کہیں گر جائے تو ناپاک بھی نہیں اور اُس کی حرمت بھی نہیں ہے وہ تو وہاں کی رواجی چیز ہے۔ یہ اِمامِ اعظم رحمة اللہ علیہ نے دقت ِ نظر سے فیصلہ فرمایا ہے۔ اَلکحل کی حیثیت : اِسی واسطے یہ'' اَلکحل ''وغیرہ والی دوائیں جو ہیں یہ آج جو چل رہی ہیں اگر دُوسرے ائمہ کو دیکھا جائے تو وہ بالکل منع کرتے ہیں اُن کی رُو سے حرام ہوگی لیکن اِمامِ اعظم رحمة اللہ علیہ کا دیکھا جائے تو پھر یہ جائز ہے کیونکہ اِس میں تو فقط دوا کی حفاظت مقصود ہوتی ہے کوئی نشہ وشہ نہیں ہوتا ،پتہ ہی نہیں چلتا آدمی کو چاہے نیا آدمی ہو چاہے پرانا ہو، چاہے پہلی دفعہ پی رہا ہووہ دوا کچھ بھی نہیں ہوگا اُسے، نشے کا اَثر ہی نہیں آئے گا بالکل۔