ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2014 |
اكستان |
|
''ہم برابر اِسی پر لگے بیٹھے رہیں گے جب تک لوٹ کر آئے ہمارے پاس موسٰی۔ '' جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو واپسی کی اِجازت دی تو حضرت موسٰی علیہ السلام جلدی سے قوم کے پاس آئے،وہاں پہنچے تو دیکھا کہ بنی اِسرائیل بچھڑے کی عبادت میں مشغول ہیں، حضرت موسٰی علیہ السلام کو شدید غصہ آیا اُنہوں نے توراة کی تختیاں چھوڑ کر حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑھی کے بالوں سے پکڑ لیا اور کہا کہ تم نے اِنہیں اِس کام سے کیوں نہ روکا ؟ حضرت ہارون علیہ السلام نے جواب دیا کہ اے بھائی ! مجھے اِس بات کا ڈر تھا کہ اگر میں اِنہیں منع کروں گا تویہ دو گرہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، ایک گروہ میرے ساتھ ہوگا اور دُوسرا سامری کے ساتھ ہوگا اور میں اُن کی تفریق کا سبب بن جاتا۔ پھر حضرت موسٰی علیہ السلام سامری کی طرف متوجہ ہوئے جس کی آنکھوں سے خباثت ٹپک رہی تھی اور اُس سے کہا : اے سامری تونے ایسا کیوں کیا ؟ اُس نے جواب دیا : (کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ) سامری کو اپنے کیے پر بالکل ندامت نہ تھی چنانچہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اِسے بنی اِسرائیل سے نکال دیا اور لوگوں سے کہا کہ اِس سے مقاطعہ کرلیں اور موت تک اِس سے بالکل گفتگو نہ کریں۔ اور اِس بچھڑے کو جس کی وجہ سے بنی اِسرائیل گمراہ ہوئے حضرت موسٰی علیہ السلام نے آگ میں ڈال دیا یہاں تک کہ وہ جل کر راکھ ہو گیا پھر اِس کی راکھ سمندر میں بہادی گئی۔ گویا حضرت موسٰی علیہ السلام بنی اِسرائیل کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ یہ ہے تمہاا خدا جس کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، یہ تو اپنا دفاع بھی نہ کر سکا تمہارے نفع و نقصان کا کیسے مالک ہوسکتا ہے ؟ جب بنی اِسرائیل نے بچھڑے کا اَنجام دیکھا تو اپنے سابقہ اَفعال پر ندامت وتوبہ کی اور دوبارہ ہدایت کے راستے پر آگئے لیکن اُن کی شرمندگی اُن کے سابقہ گناہوں کی تلافی نہ کر سکی اور اللہ کی طرف سے معافی کا اعلان نہ ہوا بلکہ اللہ نے فرمایا :