ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
'' تو نکاح کرلو جوعورتیں تم کو خوش آویں دو دو، تین تین، چار چار۔'' (٢) وَانْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّاِلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَائِکُمْ۔(سُورة النور: ٣٢ ) '' اور نکاح کردو رَانڈوں کا اپنے اَندر اور جو نیک ہوں تمہارے غلام اور لونڈیاں۔'' (٣) وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّاوَرَائَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ (سورة النساء : ٢٣) ''اور حلال ہیں تم کو سب عورتیں اِن کے سوابشرطیکہ طلب کرواِن کو اپنے مال کے بدلے قید میں لانے کو، نہ مستی نکالنے کو۔'' (٤) وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلاً اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ. ( سورة النساء : ٢٥) ''اور جو کوئی نہ رکھے تم میں مقدور اِس کا کہ نکاح میں لائے بیویاں مسلمان تو نکاح کرلے اُن سے جو تمہارے ہاتھ کے مال ہیں جو کہ تمہاری آپس کی لونڈیاں ہیں مسلمان۔'' یہ آیات واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ عفت و پاکدامنی حاصل کرنے اور توالدو تناسل کے مقاصد سے نکاح کرنا اللہ تعالیٰ کی نظر میں نہایت مہتم بالشان معاملہ ہے۔ اِسی بنا پر قرآنِ کریم میں جابجا اہتمام کے ساتھ معاشرتی مسائل کو ذکر فرمایا گیا ہے۔ اَحادیث ِمبارکہ میں نکاح کی اہمیت : علاوہ اَزیں آنحضرت ۖ کی قولی وعملی اَحادیث بھی نکاح کی اہمیت پر صراحةً دال ہیں : (١) ایک حدیث شریف میں اِرشاد ہے کہ '' جب کسی شخص نے نکاح کر لیا تو اُس نے اپنا آدھا دین مکمل کر لیا ،اَب وہ (آگے)آدھے باقی ماندہ دین میں اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے۔ '' (مشکوة شریف ٢/٢٦٨)نکاح کو نصف دین قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ گناہوں کا زیادہ تر صدور اِنسان کے منہ اور شرمگاہ سے ہوتا ہے اگر وہ نکاح کرکے شرمگاہ کو گناہوں سے بچا لے تو گویا اُس نے معاصی کے آدھے راستے کو بند کردیا اور دینی خرابی سے بچا لیا۔ (٢) نیز اِرشاد نبوی ۖ ہے کہ ''اے نوجوانوں کی جماعت ! جو تم میں سے قدرت رکھتا