ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
تو اِن میں ایک چیز یعنی خدا کے ساتھ شریک کرنا یہ ایسی چیز ہے کہ جسے عقلاً بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی آدمی اِقتدارِ اعلیٰ میں یاجو کام اُس نے کیا ہو اُس میں خوامخواہ دُوسرے کا نام پسند نہیں کرتا ،پیدا تو کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اور کہا یہ جائے کہ فلاں بت نے پیدا کیا ہے تو یہ وہ بات ہوئی کہ جسے اِنسان اپنی ظاہری زندگی میں پسند نہیں کرتا کہ کام تو اُس نے اَنجام دیا ہو اور کہا یہ جائے کہ فلاں نے نہیں فلاں نے کیا ہے، یہ بات عقلاً سمجھ میں آتی ہے لیکن حقیقت تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں تھا کیونکہ یہ باطنی چیزیں ہیں جن کا نظر سے حس سے تعلق نہیں ہے اِس لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے واسطے اَنبیاء کرام علیہم الصلٰوةوالسلام کو بھیجا ہے اُنہوں نے یہ تعلیمات دیں۔ والدین کی نافرمانی، وضاحت : آگے دُوسری عُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ماں یا باپ کی یا ماں باپ دونوں کی نافرمانی کرنا۔ نافرمانی کا اَلبتہ معیار ضرور ہے کہ کس چیز میں کی جائے کس چیز میں نہ کی جائے ؟ اگر وہ نماز سے روکتے ہیں تو نماز سے تو نہیں رُکے گاکیونکہ اللہ کے حکم کا دَرجہ اُن سے بڑا ہے لیکن جائز کام ہو اُس جائز کام سے وہ روکتے ہوں تو رُکنا نہیںچاہیے۔ نافرمانی کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اِس قسم کی نافرمانی کہ جس سے اُن کی ناراضگی ہوتی ہو اُنہیں دُکھ پہنچتا ہو مقصد بھی وہی ہے اُس میں اِنسان کی زبان سے لے کر اور باقی حرکات تک سب داخل ہیں قرآنِ پاک میں ہے ( وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْآ اِلَّا اِیَّاہُ ) اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اُس کے سوا باقی کسی کی عبادت نہ کرو ( وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ) اوروالدین کے ساتھ حسن ِ سلوک۔ صحابہ کرام میں تو ایسی صورت بھی تھی کہ باپ مسلمان ہو گیا بیٹا نہیں ہوا، بیٹا مسلمان ہو گیا باپ نہیں ہوا، بیوی نہیں ہوئی، خود مسلمان ہو گیا اور کوئی بھی نہیں ہوا مسلمان ، یہ مثالیں ملیں گی۔ حضرت اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بالکل شروع سے اِسلام پر چلے آرہے ہیں اور ایک بیٹا عبدالرحمن جو ہیں وہ دیر میں مسلمان ہوئے بلکہ ہجرت بھی کر آئے ہیں تو مسلمان ہوئے ہیں اور بدر کی جو لڑائی ہوئی ہے غزوہ ہوا ہے اُس میں عبدالرحمن اہلِ مکہ کی طرف سے آئے ہیں تو ایسے بھی ہوا ہے ۔