ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
کافر ماں باپ کے ساتھ روّیہ : اَب جو مسلمان ہوگئے تھے وہ ماں باپ سے تعلق رکھیں نہ رکھیں کیا کریں ؟ بہت بڑا مسئلہ تھا یہ اُن کے لیے اُلجھن تھی اور ایسی خلش ہوتی ہے یہ کہ جو دُور نہیں ہوتی کسی طرح تو آقائے نامدار ۖ نے اُن کے ساتھ بھی حسن ِ سلوک ہی کی تعلیم فرمائی کہ اَچھا سلوک رکھو اُن کے ساتھ، بد اَخلاقی نہ کرو بُرا برتاوا نہ کرو ۔ماں باپ اَلبتہ اِسلام لانے پر پریشان کیا کرتے تھے یہ مثالیں بہت ہیں ۔ بیٹا مسلمان،باپ کافر : سہیل تھے جو (قریش کی طرف سے) معاہدہ لکھنے آئے تھے حدیبیہ کے موقع پر اُن کے بیٹے ہیں اَبوجَندل وہ مسلمان ہو گئے تھے اُن کو اِنہوں نے باندھ کے ڈال رکھا تھا زنجیروں سے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں اور وہ کسی نہ کسی طرح اِدھر آگئے اور آکے اپنے آپ کو مسلمانوں میں لا کے ڈال دیا کہ دیکھو میں مسلمان ہو گیا ہوں اور وہ جو(اُن کے باپ) سہیل تھے اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن نمائندہ بن کر آئے تھے کفارِ مکہ کی طرف سے صلح لکھنے کے لیے، وہ بالکل اَکڑ گئے اُنہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اِسے آپ میرے حوالے کریں گے ، لازماً واپس کریں گے۔ رسول اللہ ۖ نے بہت عجیب عجیب جملے اِستعمال فرمائے جیسے خوشامد میں کیے جاتے ہیں اوریہ بھی فرمایا کہ اِسے مجھے دے دو، اَب ''اِسے مجھے دے دو'' کا مطلب تویہ ہوتا ہے کہ جیسے اپنی اَولاد کورکھوں گا ویسے ہی اِسے رکھوں گا اور یہ بہت ہی بڑا درجہ ہے ۔ اُنہوں نے کہا نہیں، ایک ساتھی تھا اُن کا، کُرز اُس کا نام ہے جب اِتنے کلمات فرمائے آپ نے تو اُس کو خیال آیاوہ کہنے لگا بلکہ ہم نے اِسے آپ کو دے دیا حالانکہ وہ اچھا آدمی تھا بھی نہیں لیکن اُس نے بھی کہا لے لیں،وہ کہنے لگا سہیل کہ نہیں یہ نہیں ہو سکتا، کسی طرح راضی نہیں ہوا پھر آخر کار اُن کو واپس کرنا پڑا تو باپ مسلمان نہیں ہوا اور بیٹا مسلمان ہو گیا ہے، بڑی تکلیف ،ٹکراؤ ہروقت اور دباؤ اُوپر کا ،ایسی مثالیں بہت ہیں۔