ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
حضرت شیخ الہند اور سنت ِعیادت : اَکابرِ دیوبند رحمہم اللہ کواللہ تعالیٰ نے اِتباع سنت کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا وہ ہر ہر موقع پر اِس کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت میاں اَصغر حسین صاحب (م : ١٣٦٤ھ/١٩٤٥ئ) حضرت شیخ الہند (م : ١٣٣٩ھ/ ١٩٢٠ئ) کے اِتباعِ سنت کے واقعات کے ذیل میںیہ واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ ''ایک روز (حضرت شیخ الہند) اَحقر کی عیادت کو تشریف لائے اور صرف مصافحہ کرکے واپس ہونے لگے، میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کو بھی آج ہی حدیث پر عمل کرنا تھا، تبسم فرما کر فورًا پڑھ دیا کہ اَلْعَیَادَةُ فَوَاقَ نَاقَةٍ ۔ ١ مطلب یہ ہے کہ عیادت میں اِتنی دیر لگانی چاہیے جتنی دیر میں اُونٹنی کا دو مرتبہ دُودھ دوہاجاتا ہے ۔اُونٹنیوں والے عمومًا اُونٹنیوں کا دُودھ اِس طرح دوہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دُودھ دوہا اور ذرا سی دیر رُک گئے اور اُن کے بچوں کو تھنوں سے لگادیا تاکہ دُودھ تھنوں میں اچھی طرح اُتر آئے پھر اِس کے بعد بچوں کو ہٹا کر دُودھ دوھنا شروع کردیتے ہیں ،اِس طرح دونوں مرتبہ دُودھ دوہنے کا درمیانی وقفہ بہت تھوڑا سا ہوتا ہے۔ حدیث ِپاک میں عیادت کے بارے میںفرمایا جارہا ہے کہ جب کوئی کسی مریض کے پاس جائے تو اُس کے لیے اَفضل ہے کہ وہ مریض کے پا س زیادہ یر تک نہ بیٹھے بلکہ اِتنی دیر بیٹھے جتنی دیراُونٹنی کے دو مرتبہ دُودھ دوہنے میں لگتی ہے۔ حضرت شیخ ا لہند اِس حدیث ِپاک پر عمل کر رہے تھے اور دُوسروں کو بھی اپنے عمل سے اِس کی دعوت دے رہے تھے۔ عیادت کرنے والوں کے لیے حضرت سَرِی سَقَطی کی دُعا : بسا اَوقات ایسا ہوتا ہے کہ بیمار آدمی کو عیادت کے لیے آنے والے سے بے تکلفی اور طبعی مناسبت نہیں ہوتی وہ چاہتا ہے کہ عیادت کرنے ولا جلدی چلا جائے، اگر ایسا شخص دیر تک بیٹھا رہے تو بیمار کو اِس سے سخت اَذیت ہوتی ہے ۔تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے جس سے اِس حقیقت کا بخوبی اِظہار ١ حیاتِ شیخ الہند ص ٢١٣