ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
''یمین ِ غموس'' کیا ہے : مگر یہ کہ جو جانتا ہے کہ ایسی بات نہیں ہے اور گزری ہوئی بات کے بارے میں قسم کھاتا ہے اور جھوٹی قسم کھاتا ہے وہ یمین ِ غموس ہے''غَمَسَ ''کے معنی ہیں ڈبونے کے ، غَمُوْسْ کے معنی ڈبونے والی یعنی گناہ میں ڈبونے والی یا خدا کی ناراضگی میں ڈبونے والی یا جہنم کی آگ میں ڈبونے والی، بہرحال ماضی پر جو گزرچکی ہو چیز اُس کے بارے میں جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانی اِس کا نام یمینِ غموس ہے۔ تو جو کافر ہوتے تھے اُن کو تو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی تھی جس طرح چاہیں قسم کھا لیں جو چاہے قسم لے لیں لیکن مسلمان، مسلمان کو روک دیا گیا۔ قسم صرف ''اللہ ''کی : ایک تو یہ کہ'' اللہ ''کے سوا باقی قسم نہ کھاؤ کسی کی بھی، اللہ ہی کی قسم کھائی جا سکتی ہے اللہ کی ذات اِس قابل ہے کہ جس کو قسم کے لیے اِستعمال کیا جائے اور دُوسرے یہ کہ قسم جب یہ کھائے تو غلط نہ ہو ماضی کے بارے میں جھوٹی نہ ہو، مستقبل کے بارے میں دیکھا جائے گا کہ اُس نے جو قسم کھائی ہے کیا گناہ کے کام کی کھائی ہے مثلاً کسی نے قسم کھائی کہ ضرور چراؤں گا ضرور ڈاکہ ڈالوں گا، ضرور گالیاں دُوں گا جا کر فلاں آدمی کو تو ایسی قسم جو کھا بیٹھا ہے گناہ کی بات کے لیے اُس قسم کا توڑنا ضروری ہے اور اُس کا کفَّارہ دینا چاہیے وہ قسم قائم رکھنے کے قابل نہیں۔ اور ایک ہے یہ کہ جائز کام کے لیے ہے صرف تاکید کے لیے قسم کھالی ہے اور نہیں کر سکا وہ کام تو اِس صورت میں بھی وہ حانث ہوجائے گا اور اُسے کفارہ دینا پڑے گا یہ کفارہ ہی اِستغفار ہے گویا ایک طرح کا کہ اُس گناہ سے بچاؤ اُس گناہ کا جو غلطی ہوئی اور خدائے پاک کا نام غلط طرح اِستعمال ہوگیا تواِس صورت میں اُس کا کفارہ رکھ دیا گیا ( اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ) دس مسکینوں کو کھانا کھلانا (مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ ) اپنے گھر والوں کو جیساکوئی کھلاتا ہے اَوسطًا ویسا (اَوْکِسْوَتُھُمْ)