ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
ساتھ ہی یہاں قرآنِ کریم کے اسلوب سے اِس حقیقت کا بھی اِظہار ہوتا ہے کہ زوجین کے درمیان اِس ''محبت ورحمت'' کی بنیاد وہ ''رشتہ ٔزوجیت'' ہے جو اِن کے مابین قائم ہے چنانچہ تجربہ سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اگر مرد وعورت میں یہ رشتہ موجود نہ ہو تو وہ دونوں نہ تو زوجیت جیسا سکون حاصل کر سکتے ہیں اور نہ اُن میں محبت کی پائیداری کا وہ معیار پایا جاسکتا ہے جو واقعتا زوجین میں ہوتا ہے اِسی لیے آنحضرت ا نے اِرشاد فرمایا : لَمْ تَرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ۔ (مشکوة شریف ١ / ٢٦٨) ''آپ ناکح ومنکوح جیسے محبت کرنے والے (کہیں اور) نہ دیکھیں گے۔'' نکاح ہی کیوں ضروری ہے ؟ یہاں یہ وہم پیدا ہوسکتا ہے کہ دُنیا کی آبادی نکاح ہی پر کیوں موقوف ہے ، یہ ضرورت تو بِلا نکاح بھی پوری ہوسکتی ہے پھر اِسلام نے نکاح ہی کو کیوں متعین کیا ہے ؟ اِس وہم کو دُور کرنے کے لیے درجِ ذیل حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ (١) نکاح کے بغیر مردوعورت میں جو جنسی تعلق قائم ہوتاہے وہ دیر پا نہیں ہوتا،جوں جوں عمر ڈھلتی ہے اور کشش کے اَسباب کم ہوتے ہیں اُسی رفتار سے محبت کے تارو پود بکھر تے چلے جاتے ہیں جبکہ نکاح کے ذریعہ قائم ہونے والا تعلق وقت کے ساتھ ساتھ گہرا اور پر خلوص ہوتا چلا جاتا ہے۔ (٢) اگر مرد وعورت کو نکاح کی قیدسے آزاد کر کے مطلقاً ایک دُوسرے سے خواہشات کی تکمیل کا موقع دیا جائے تو یہ عالم فتنہ و فساد کی آماجگاہ اور قتل وخوں ریزی کا مرکز بن جائے، اِس لیے کہ پسندیدہ مفادات کے ٹکراؤ اورپیدا ہونے والے بچوں پر دعویٰ اِستحقاق ایسے سنگین مسائل ہیں جن سے نپٹنا نا ممکن ہے۔ (٣) نکاح کی قید اگر نہ ہو تو نسب کی حفاظت ہرگز نہیں ہوسکتی کیونکہ آزادی کی بنا پر جس بچے پر جو شخص چاہے دعویٰ کرنے کا مجاز ہوگا۔