ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
ہوتا ہے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم حضرت سری سقطی رحمہ اللہ (م: ٢٥٣ھ) کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں : ''حضرت سری سقطی رحمة اللہ علیہ ہی کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے تو کچھ لوگ عیادت کے لیے آئے ۔اَحادیث کی رُو سے عیادت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ بیمار شخص سے بے تکلف نہ ہوں اُن کو مختصر طور پر بیمار پرسی کرنے کے بعد بیمار کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھنا چاہیے تاکہ اُسے تکلیف نہ ہو لیکن حضرت سقطی کی بیمار پرسی کرنے والے دیر تک اُن کے پاس بیٹھے رہے، تکلف والے اَفراد کے دیر تک بیٹھنے سے بیمار کو طبعی طور پر تکلیف ہوتی ہے، حضرت کو بھی ہوئی، جب کافی دیر گزر گئی تو آنے والوں نے کہا ''دُعا فرمادیجئے '' اِس پر حضرت سقطی نے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا یااللہ ! ہمیں عیادت کے آداب سکھادیجیے۔''(حلیة الاولیاء ١٠/ ١٢٢ ) ١ عیادت کے لیے آنے والے بہرہ کی حکایت : آج کل لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ دین و شریعت پر کسی نہ کسی درجے میں عمل کرتے تو ہیں لیکن شریعت کے کہنے کے مطابق عمل کرنے کے بجائے اپنی مرضی اور اپنی طبیعت کے مطابق عمل کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمل عبادت بننے کے بجائے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بن جاتا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اِس بات کو سمجھانے کے لیے مثنوی مولانا رُوم سے ایک بہرہ کی حکایت نقل کی ہے یہ حکایت چونکہ ہمارے مضمون سے بھی مطابقت رکھتی ہے اِس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اِس موقع پر ذکر کی جائے شاید کوئی اِس سے نصیحت حاصل کر لے اور اپنے اَعمال کی اِصلاح کی کوشش میں لگ جائے۔ ملا حظہ کیجیے حضرت تھانوی فرماتے ہیں : ١ جہانِ دیدہ ص ٢٧