ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
میں فرمایا گیا کہ ''زانی زِنا کرتے وقت مومن ہی نہیں رہتا۔''(مشکوة شریف ج ١ ص١٧) اور آنحضرت ۖ کو سفر معراج میں زانیوں کے عذاب اَلیم کا مشاہدہ کرایا گیا کہ وہ آگ کے تنور میں جل بُھن رہے ہیں۔(مظاہرِ حق ج ٤ ص٤١) زِنا کی روک تھام : پھر اِسلام نے زِنا کی روک تھام میں محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیا ( جیسا کہ آج کل کے نام نہاد مہذب لوگوں کا شیوہ ہے ) بلکہ عملی طور پر اِس فاحشہ اور معاشرہ کے ناسور کو ختم کرنے اور بلکہ جڑ سے اُکھیڑ دینے کی جدوجہد کی چنانچہ : (١) زِنا کی عبرتناک سزا مقرر کی گئی ہے یعنی اگر مجرم کنوارہ ہے تو سو(١٠٠)کوڑے لگائے جائیں (سورہ ٔ نور آیت ٢)اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو اُسے سنگسار کیا جائے تا آنکہ وہ مرجائے۔ (مشکوة شریف ٢/٣٠٩) اِن عبرتناک اور ناقابلِ معافی سزاؤں پر عمل در آمد کی وجہ سے زِناکاری کا کافی حد تک سدباب ہوجاتا ہے۔ (٢) شریعت میں فواحش کا برسرعام تذکرہ تک ممنوع ہے حتی کہ اگر کوئی شخص بلا تحقیق کسی شخص یا عورت پر زِنا کی تہمت لگائے تو اُس پر ٨٠ کوڑے کی سزا بطور ''حدِّقذف'' جاری کی جاتی ہے تاکہ یہ موضوع عوام میں آسانی کے ساتھ بحث کا موضوع نہ بنے۔ اور قذف کے سزاوار کو فاسق قراردے کر اُس کی گواہی غیر معتبر مانی جاتی ہے ( سور ہ نور آیت ٤) تاکہ وہ اپنی عزت نفس جاتے رہنے کے خوف سے اِس منکر کا اِرتکاب نہ کرے۔ (٣) فواحش ومنکرات کا سب سے بڑا سبب مرد وعورت کے درمیان بے محابا اِختلاط اور بے حجابی ہے۔ شریعت نے اِس دروازہ کو بند کرنے کے لیے اپنے متبعین کو شرعی پردہ کا پابند بنایا ہے اور اِس عمل کو تزکیۂ نفس کا سبب قرار دیا ہے چنانچہ مردوعورت کو اپنے محار م واَزواج کے علاوہ دیگر اَجنبی