ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
عورتوں کو لکھنا سکھانے میں اِفراط و تفریط : آج کل بعض لوگ کتابت تو عورتوں کے لیے مطلقاً حرام سمجھتے ہیں، یہ بھی غلو ہے اور بعض نے اِس کو اِتنا جائز کردیا کہ اَخباروں میں عورتوں کے مضامین چھپتے ہیں جس میں صاحب ِمضمون کا پورا نام اور پتہ درج ہوتا ہے، ہر طرف اِفراط وغلو ہے۔ تنگی کریں گے تو حرام سے اِدھر نہ رہیں گے اور وسعت دیں گے تو پردہ دری سے اُدھر نہ رہیں گے۔ ( اِمداد الفتاوی) لڑکیوں کو آزاد عورت سے تعلیم ہر گز نہ دِلانا چاہیے : مستورات کو باہر پھرنے والی عورتوں سے بھی بہت بچانا چاہیے خصوصًا شہروں میں جو یہ رواج ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کو میمیں گھر پر آکر پڑھاتی ہیں اِس کو سختی سے بند کردینا چاہیے۔ کانپور میں سنا کرتا تھا کہ آج فلاں عورت بھاگ گئی اور کل فلاں کی بیٹی بھاگ گئی ،یہ صرف اِسی کا نتیجہ تھا کہ عورتوں کو پڑھانے کے لیے میمیں گھر پر آتی تھیں تو یہ ہر گز نہ ہوناچاہیے۔ (حقوق الزوجین ص ٣٢) آدمی اپنی لڑکیوں کو آزاد بے باک عورتوں سے تعلیم دیتے ہیں اور یہ تجربہ ہے کہ ہم صحبت کے اَخلاق و جذبات کا آدمی پر ضرور اَثر ہوتا ہے خاص کر جب وہ شخص ہم صحبت ایسا ہو کہ متبوع اور معظم بھی ہو اور ظاہر ہے کہ اُستاد سے زیادہ اِن خصوصیات کا کون جامع ہوگا تو اِس صورت میں وہ آزادی اور بے باکی اِن لڑکیوں میں بھی آئے گی۔ اور میری رائے میں سب سے بڑھ کر جو (وصف) عورت کا ہے وہ حیا اور اِنقباضِ طبعی ہے، یہی تمام خیر کی مفتاح ہے جب یہ نہ رہا تو پھر اِس سے نہ کوئی خیر متوقع ہے اور نہ کوئی شر مستبعد ہے ،ہر چند کہ اِذَا فَاتَکَ الْحَیَائُ فَافْعَلْ مَاشِئْتَ عام ہے لیکن میرے نزدیک مَاشِئْتَ کا عموم بہ نسبت مردوں کے عورتوں کے لیے زیادہ ہے اِس لیے کہ مردوں میں پھر بھی عقل کسی قدر مانع ہے اور عورتوں میں اِس کی بھی کمی ہے۔ اِسی طرح اگر اُستانی ایسی نہ ہو لیکن ہم سبق اور ہم مکتب لڑکیاں ایسی ہوں تب بھی اِسی کے قریب مضرتیں واقع ہوں گی۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ص ٢٧١)۔(جاری ہے) ض ض ض